لکھنؤ: اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں شاہی امام باڑے کی تاریخی عمارتیں پُراسرار سرنگوں کا عظیم مرکز ہیں جہاں پر دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور ان مقامات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تاہم موجودہ دور میں یہ مقامات اور تاریخی عمارتیں انتہائی خستہ حالت میں ہیں لیکن مسلسل احتجاج کرنے کے بعد اب حسین آباد ٹرسٹ اور محکمۂ آثار قدیمہ نے رومی گیٹ اور آصفی امام باڑے کی تزئین اور مرمت کا کام شروع کیا ہے لیکن اس پر بھی عوام اعتراض کررہے ہیں۔ لوگوں کا الزام ہے کہ ان عمارتوں سے تاریخی گوشے ختم کیے جارہے ہیں۔ Lucknow Public demanding to Protect Monuments
یہ بھی پڑھیں:
لکھنوی تہذیب و ثقافت کے علمبردار میر جعفر عبداللہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے کہا کہ رومی دروازہ کے بالائی حصہ میں شگاف ہوگیا تھا جس کی مرمت کے لیے آئی آئی ٹی کانپور سے ٹیم آئی تھی اس نے سروے کیا تھا اور اس کی مرمت کی ترکیب بتائی تھی لیکن کوئی عمل نہیں ہوا۔ اب جب مسلسل احتجاج کیا گیا اور ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی گئی تو اس کے بعد مرمت اور تزئین کاری کا کام شروع ہوا ہے۔ یہ کام 15 برس قبل شروع ہونا چاہیے تھا لیکن اب شروع ہوا ہے۔ اب بھی اس کی بہتر دیکھ بھال کی جائے تو ان کی عمریں بڑھ سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا جو لوگ آواز اٹھا رہے ہیں کہ آصفی امام باڑے کی دیواروں سے نقاشی ختم کرکے صرف پلاسٹر لگایا جارہا ہے، ایسا نہیں ہے۔ نقاشی کے لیے پلاسٹر کا ہونا ضروری ہوتا ہے اس کے اوپر نقاشی کی جاتی ہے اور ایسا ہی ہورہا ہے چونکہ امام باڑے کی تعمیر میں جو مسالہ استعمال ہوا ہے وہ عام مسالہ نہیں تھا، اس لیے اس پر سیمنٹ نہیں پکڑ سکتا ہے۔ وہی مسالہ استعمال کرنے پر مضبوطی آئے گی جوکہ موجودہ دور میں نادر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصفی امام باڑے کے اردگرد غیر قانونی قبضہ ہے، اس کے علاوہ آس پاس جھاڑیاں ہیں اور گندگیوں انبار ہے۔ جب کہ یہ مرکزی حکومت کے محکمۂ آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہے۔ اس امام باڑے کو بین الاقوامی آثار قدیمہ کا درجہ مل سکتا تھا لیکن قوم و حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا اور آج یہ تباہی کے دہانے پر ہے۔