اترپردیش كے دارالحكومت لکھنؤ کے بڑے امام باڑے کے بھول بھو لیا کی عمارت خستہ حالی ہوچکی ہے۔ ماضی قریب میں بارش کی وجہ سے ایک گنگورہ منہدم ہو گیا تھا اس کے بعد انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس کے علاوہ رومی دروازہ میں دراڑ پڑ گئی ہے ۔پکچر گیلری کی دیواریں خستہ حال ہیں ۔باولئ (کنواں) کی دیواریں جگہ جگہ پر ٹوٹی ہوئی ہیں۔ امام باڑہ کی دیواریں،گنبد خستہ حال ہیں ۔لیکن حسین آباد ٹرسٹ کی كوئی توجہ نہیں ہے۔محکمہ آثار قدیمہ بھی اس كی مرمت کو لے كر دلچسپی نہیں دیكھا رہی ہے۔lucknow monument crumbling under govt negligence
نواب آصف الدولہ نے 1775 میں بڑے امام باڑے کی تعمیر کی ابتداء کی تھی ۔اس حوالے سے ایک معروف زمانہ قصہ مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں قحط سالی تھا عوام کو روزگار سے وابستہ کرنے کے لئے امام باڑے کی تعمیر کی ابتدا کی تھی۔ 1784 میں عمارت مکمل تعمیر ہوئی۔یہ عمارت رکھولی اینٹ اور سرخی سے تعمیر کی گئی ہے جو فن تعمیر کا اعلی شاہکار ہے۔اج بھی فن تعمیر کے ماہرین اس عمارت کی آرکیٹیکٹ کو دیکھ کر ششدر و حیران پوجاتے ہیں۔
نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے میر جعفر عبداللہ بتاتے ہیں کہ حسین آباد علاقے کو ہریٹیج زون کہا جاتا ہے۔اس میں متعدد تاریخی عمارت ہیں جو خستہ حال ہیں۔ حسین اباد ٹرسٹ اور محکمہ آثار قدیمہ ان کے تحفظ کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں بھول بھولیا کی دیوار و گنبد منہدم ہوگیا تھا ۔
اسی طرح آئے دن کچھ نہ کچھ منہدم ہوتا رہتا ہے۔ حسین آباد ٹرسٹ کے چیئرمین Husainabad Trust Chairman لکھنو کے ڈی ایم ہیں لیکن اس کی کوئی کمیٹی نہیں ہے اور یہ انتہائی حیران کن ہے کہ ایک ایسے ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں جس کی کوئی کمیٹی نہیں حالانکہ وہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ٹرسٹ کے خزانہ کو ہر طرف لوٹا تو جارہا ہے لیکن عمارت کی دیکھ ریکھ پر کوئی توجہ نہیں ہے۔اس کی وجہ سے یہ عمارتیں انتہائی خستہ ہو چکی ہیں حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ان عمارتوں کے تحفظ کے لئے خصوصی بجٹ کی منظوری دی۔ جیسے ایودھیا اور بنارس کے لئے خاص بجٹ مختص کیا گیا ہے تاکہ نوابوں کی ورثے کو محفوظ رکھا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:Madarsa Education Board اترپردیش مدرسہ بورڈ کا اہم اجلاس، ضوابط میں اہم تبدیلی کا امکان
وہ کہتے ہیں کہ ان عمارتوں سے ہونے والی آمدنی حکومت کے ساتھ حسین آباد ٹرسٹ کے خزانے میں ہوتا ہے۔اس کا تہائی حصہ بھی عمارت کی تحفظ پر خرچ نہیں ہوتا ہے۔محکمہ آثار قدیمہ کو مجسٹریٹ پاور نہیں دی جاتی۔اس کی وجہ سے وہ کہتا ہے کہ کام کرانے کا اختیار نہیں ہے اور حسین آباد ٹرسٹ کے پاس بجٹ کا شکوہ ہوتا ہے ۔اس کی وجہ سے وہ اس کی دیکھ بھال پر کام نہیں کر پاتا ہے۔حکومت سے گزارش ہے کہ ان تمام رکاوٹوں کو دور کر اس کے تحفظ پر بھرپور توجہ دیں تاکہ ان عمارتوں کی نہ صرف تحفظ کیا جا سکے بلکہ سیاحوں کے لیے دیدہ زیب بنایا جا سکے۔