ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع یوپی پریس کلب میں ضلع اعظم گڑھ کے منگراواں گاؤں کے رہنے والے کامران کے اہل خانہ نے یوپی ایس ٹی ایف پر الزام عائد کیا ہے کہ کامران کا انکاؤنٹر نہیں کیا گیا بلکہ سیاسی قتل کیا گیا ہے۔ میڈیا کے سامنے انہوں نے انکاؤنٹر پر متعدد سوال کئے ہیں اور انصاف کی فریاد کی ہے۔
گزشتہ 27 اکتوبر کو لکھنو میں ہونے والے انکاؤنٹر میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے، جس میں علی شیر اور اعظم گڑھ کے کامران شامل تھے۔
کامران کے بھائی کا کہنا ہے کہ اگر کامران جرائم پیشہ افراد میں شامل تھا اور اس پر 25 ہزار کا انعام تھا، تو پولیس نے اسے تب کیوں نہیں گرفتار کیا جب وہ روز پولیس اسٹیشن میں پانی دینے جاتا تھا، پولیس نے اس کی گرفتاری اس وقت کیوں نہیں کی جب وہ گاؤں کے میدان میں فٹبال کھیلتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کامران کا سیاسی قتل ہوا ہے۔ گاوں کے ہی کچھ لوگوں نے پولیس کے ساتھ ملکر پردھانی کے سیاسی رنجش کی وجہ سے انکاؤنٹر کرایا ہے۔
مزید پڑھیں: Lucknow Encounter: کامران کا سیاسی قتل ہوا، اہل خانہ کا الزام
انہوں نے مزید سوال اٹھائے کہ کامران کی لاش میں متعدد چوٹ کے نشانات تھے جس سے واضح ہورہا تھا کہ گولی لگنے سے پہلے اس کے ساتھ مارپیٹ ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کامران پر صرف ایک مقدمہ تھا وہ بھی سازش کی وجہ سے درج کرایا گیا تھا۔ مختار انصاری کے لیے کام کرنے کرنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ہم نے مختار انصاری کی شکل تک نہیں دیکھی صرف ٹی وی پر ان کے حوالے سے خبریں دیکھنے سے پتہ چلا کہ وہ مختار انصاری ہیں ۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کی سی بی آئی جانچ کی جائے اور انصاف دیا جائے۔
انہوں نے اترپردیش کے ڈی جی پی سے بھی ملاقات کر جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔
وہیں رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ محمد شعیب نے کہا کہ اس معاملے میں ہم پوری طریقے سے قانونی چارہ جوئی کے لیے مدد کریں گے تاکہ متاثرہ خاندان کو انصاف مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی ہے تو عدالت کا رخ کریں گے۔
میگاسیس ایواڑ یافتہ سماجی کارکن سندیپ پانڈے نے کہا کہ ہم اس کی لڑائی جاری رکھیں گے اور حکومت کے ارادے کا انکشاف کرتے رہیں گے۔