منور رانا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ کوئی بھی پیغمبر اسلامﷺ کی تذلیل کی کوشش کرے گا اور اگر ان کی شخصیت کا داغدار کرنے کے لیے کارٹون بنائے گا یا ہمارے ماں باپ کے خلاف کچھ کہے گا تو میں اسے مار دوں گا۔ ان کے اس بیان کے بعد حضرت گنج کوتوالی کے سب انسپکٹر دیپک کمار پانڈے کی تحریر پر آئی ٹی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت آج حضرت گنج کوتوالی میں ان پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد اور پھر سے اس معاملے کی جانچ دارالحکومت لکھنؤ کی سائبر سیل کرے گی۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد منور رانا نے کہا کہ سچ بولنے کی وجہ سے مہاتما گاندھی کو گالی ماری گئی اس لیے جب کوئی بھی شخص سچ بولے تو اس کو ان سب چیزوں کے لیے تیار رہنا چاہیے اس لیے میں بھی ایف آئی آر کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2015 میں جب میں نے اپنی ماں کو دفن کرنے گیا تھا تو میں نے اپنی ماں کی قبر سے لپٹ کر کہا تھا کہ صرف یہ دعا کریئے گا کہ جب میں آپ کے بغل میں دفن ہوں تو آپ کا سر فخر سے سرشار رہے کہ آپ کا بیٹا سچ بولتا ہوا آیا ہے انصاف کی بات کرتا رہا ہے۔ حکومت کے لیے ضمیر بیچ کر نہیں آیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں اس ایف آئی آر سے خوش ہوں۔ میں تو جیل میں مرنا چاہتا ہوں اور شان سے مرنا چاہتا ہوں بلکہ بہتر یہ ہے کہ یہ لوگ مجھے کسے چوراہے پر علی الاعلان شوٹ کردیں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ بھارت میں سچ بولنے والے ہر صدی میں رہے ہیں اور جان دینے کے لیے بھی تیار رہے ہیں۔
خیال رہے کہ فرانس میں ہونے والے واقعے پر منور رانا نے کہا ہے کہ 'اگر میں اس جگہ (اس طالب علم کی جگہ) پر ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کرتا، منور رانا نے کہا کہ آپ لوگ تنازعہ کو جنم دے کر لوگوں کو مشتعل کررہے ہیں، محمدﷺ کا ایک متنازع کارٹون بنا کر اس طالب علم کو قتل کرنے پر مجبور کیا گیا، اگر میں اس طالب علم کی جگہ ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو اس نے کیا تھا'۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ مذہب ایک ماں کی طرح ہے اگر کوئی ایسا کارٹون بناتا جس سے کسی طبقے کی دل آزاری ہوتی ہے یا آپ کی والدہ کو گالی دیتا ہے تو اسے قتل کرنا جرم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ منور رانا نے لارڈ رام کے بارے میں بھی واضح لفظوں میں کہا کہ اگر کوئی بھگوان رام کا متنازعہ کارٹون بناتا ہے تو میں اسے بھی مار ڈالوں گا۔
اصل میں منور رانا یہ کہنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کسی بھی مذہب کی سرکردہ شخصیت کی تذلیل کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جانی چاہیے کیوں کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو سماجی تانہ بانہ بکھر جائے گا۔