ETV Bharat / state

لو جہاد آرڈیننس: ملا جلا رد عمل

author img

By

Published : Nov 24, 2020, 9:57 PM IST

Updated : Nov 24, 2020, 10:49 PM IST

یوگی حکومت نے جبراً مذہب تبدیلی کی روک تھام کے لئے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کو منظوری دی ہے۔ کوئی اس کا خیر مقدم کر رہا ہے تو کسی نے آئین کے خلاف بتایا۔

love Jihad Ordinance: Someone welcomed it, someone said it was against the constitution
لو جہاد: کسی نے خیر مقدم کیا تو کسی نے آئین کے خلاف بتایا

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی صدارت میں منعقدہ کابینی اجلاس میں کئی تجاویز کی منظوری دی گئی ہے، جس میں ایک ایگزیکٹیو آرڈر کو منظور کر لیا گیا ہے۔ اس کے تحت جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی تحقیقات کی جائے گی۔

لو جہاد: کسی نے خیر مقدم کیا تو کسی نے آئین کے خلاف بتایا

واضح رہے کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کچھ روز قبل بیان دیا تھا کہ لو جہاد کرنے والوں کے خلاف قانون بنایا جائے گا اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دو بالغ عورت مرد کو اپنے طرح کی زندگی جینے کا حق ہے۔ اس میں 'ریاست' بھی دخل اندازی نہیں کر سکتی۔

اترپردیش کے وزیر مملکت محسن رضا نے کہا کہ لو جہاد کے تحت بچیوں کو بہلا پھسلاکر مسلمان بنایا جا رہا تھا، اس کا خلاصہ ہماری جانچ ایجنسی نے بھی کیا، جس میں پایا گیا کہ لڑکوں نے اپنا نام ہندو بتایا جبکہ وہ مسلم تھے۔ ایسے لوگوں کے لئے یہ قانون لایا گیا ہے۔ اب ہماری بچیاں محفوظ رہیں گی اور پریوار برباد ہونے سے بچ جائیں گے۔ اس کے لئے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے پہلے ہی ظاہر کر دیا تھا کہ لو جہاد کے خلاف قانون بنایا جائے گا۔

آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر یعسوب نے کہا کہ ہم سرکار کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں پر سخت کارروائی یقینی بنائے تاکہ کوئی بھی اپنا مذہب یا نام چھپا کر دھوکہ دینے کی کوشش بھی نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ صرف قانون سازی سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ اس پر عمل بھی ضروری ہے، تبھی یہ کامیاب ہوپائے گا۔ ڈاکٹر عباس نے کہا کہ اس قانون سے ہزاروں بچیوں اور پریوار برباد ہونے سے بچیں گے۔

اسلامک سینٹر آف انڈیا کے ترجمان مولانا سفیان نظامی نے کہا کہ اس طرح کے قانون بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ 'جہاد' اسلام کا ایک مقدس لفظ ہے۔ اسے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا قطعی طور پر مناسب نہیں ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ اس ملک کے اندر جبراً مذہب تبدیل کرانے کے نام پر پہلے سے قانون موجود ہے۔ اس لئے محض سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اسلام کوبدنام کیا جائے گا یہ جمہوریت میں رہنے والے کسی بھی شخص کے لئے ایک اچھی نشانی نہیں ہے۔

مولانا سفیان نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ ہم نے جس بات پر اعتراض کیا تھا سرکار نے یہی وجہ ہے کہ اس قانون میں لو جہاد کا استعمال نہیں کیا ہے۔ نئے قانون بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

قابل ذکر ہے کہ لو جہاد پر قانون بنانے پر نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ کوئی اسے محض بی جے پی کا سیاسی پروپیگنڈہ بتا رہا ہے تو کوئی ہندو ووٹ بینک کی سیاست۔

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی صدارت میں منعقدہ کابینی اجلاس میں کئی تجاویز کی منظوری دی گئی ہے، جس میں ایک ایگزیکٹیو آرڈر کو منظور کر لیا گیا ہے۔ اس کے تحت جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی تحقیقات کی جائے گی۔

لو جہاد: کسی نے خیر مقدم کیا تو کسی نے آئین کے خلاف بتایا

واضح رہے کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کچھ روز قبل بیان دیا تھا کہ لو جہاد کرنے والوں کے خلاف قانون بنایا جائے گا اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دو بالغ عورت مرد کو اپنے طرح کی زندگی جینے کا حق ہے۔ اس میں 'ریاست' بھی دخل اندازی نہیں کر سکتی۔

اترپردیش کے وزیر مملکت محسن رضا نے کہا کہ لو جہاد کے تحت بچیوں کو بہلا پھسلاکر مسلمان بنایا جا رہا تھا، اس کا خلاصہ ہماری جانچ ایجنسی نے بھی کیا، جس میں پایا گیا کہ لڑکوں نے اپنا نام ہندو بتایا جبکہ وہ مسلم تھے۔ ایسے لوگوں کے لئے یہ قانون لایا گیا ہے۔ اب ہماری بچیاں محفوظ رہیں گی اور پریوار برباد ہونے سے بچ جائیں گے۔ اس کے لئے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے پہلے ہی ظاہر کر دیا تھا کہ لو جہاد کے خلاف قانون بنایا جائے گا۔

آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر یعسوب نے کہا کہ ہم سرکار کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں پر سخت کارروائی یقینی بنائے تاکہ کوئی بھی اپنا مذہب یا نام چھپا کر دھوکہ دینے کی کوشش بھی نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ صرف قانون سازی سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ اس پر عمل بھی ضروری ہے، تبھی یہ کامیاب ہوپائے گا۔ ڈاکٹر عباس نے کہا کہ اس قانون سے ہزاروں بچیوں اور پریوار برباد ہونے سے بچیں گے۔

اسلامک سینٹر آف انڈیا کے ترجمان مولانا سفیان نظامی نے کہا کہ اس طرح کے قانون بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ 'جہاد' اسلام کا ایک مقدس لفظ ہے۔ اسے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا قطعی طور پر مناسب نہیں ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ اس ملک کے اندر جبراً مذہب تبدیل کرانے کے نام پر پہلے سے قانون موجود ہے۔ اس لئے محض سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اسلام کوبدنام کیا جائے گا یہ جمہوریت میں رہنے والے کسی بھی شخص کے لئے ایک اچھی نشانی نہیں ہے۔

مولانا سفیان نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ ہم نے جس بات پر اعتراض کیا تھا سرکار نے یہی وجہ ہے کہ اس قانون میں لو جہاد کا استعمال نہیں کیا ہے۔ نئے قانون بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

قابل ذکر ہے کہ لو جہاد پر قانون بنانے پر نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ کوئی اسے محض بی جے پی کا سیاسی پروپیگنڈہ بتا رہا ہے تو کوئی ہندو ووٹ بینک کی سیاست۔

Last Updated : Nov 24, 2020, 10:49 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.