بالی ووڈ میں کمال امروہی کانام ایک ایسی شخصیت کے طورپر لیا جاتا ہے جنھوں نے بہترین نغمہ نگار، اسکرپٹ رائیٹر اور مکالمہ نگار و پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے طورپر فلم انڈسٹری میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔
- جب فلم کے ڈائیلاگ لکھے وہ مغل اعظم بن گئے اور جب فلم کو ڈائرئیکٹ کیا تو فلم کی آرذو بن گئے۔
- اپنی قلم سے کمال دکھانے والے وہ امروہہ کے کمال تھے
سترہ جنوری 1918 کو اترپردیش کے امروہہ میں زمیندار گھرانہ میں پیدا ہوئے کمال امروہی کا اصل نام سید عامر حیدر کمال تھا۔ کہتے ہیں کہ سید عامر کی شرارت سے تنگ آکر ان کے بھائی نے ان کے گال پر ایک تھپڑ جڑ دیا، اس تھپڑ نے سید عامر کو کمال امروہی بنا دیا۔
بھائی کا تھپڑ کھانے کے بعد انہوں نے گھر چھوڑ دیا اور کمال امروہی نے امروہا چھوڑ دیا اور لاہور چلے گئے۔ وہاں وہ ایک اردواخبار میں مستقل طورپر کالم لکھا کرتے تھے۔ اخبار میں کچھ عرصے تک کام کرنے کے بعد ان کا دل نہیں لگا اوروہ کولکاتا چلےگئے اورپھر وہاں سے ممبئی آگئے ۔ ممبئی میں پہنچنے پر کمال امروہی کو منروامووی ٹون کی کچھ فلموں میں مکالمے لکھنے کا کام ملا۔ ان میں جیلر ، پکار ، بھروسہ جیسی فلمیں شامل ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کمال امروہی کووہ پہچان نہیں مل سکی۔ جس کے لئے وہ ممبئی آئے تھے۔ اپنا وجود تلاش کرکے کمال امروہی اپنی پہچان بنانے کیلئے تقریبا دس سال تک فلم انڈسٹری میں جدوجہد کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھیے
شفیع سوپوری کی ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خاص ملاقات
ہندو نے مسلم خاندان میں شادی کی دعوت کا اہتمام کیا
کمال امروہی کا ستارہ 1949 میں آئی اشوک کمار کی کلاسک فلم محل سے چمکا۔ اشوک کمار نے کمال امروہی کو فلم محل کی ہدایت کاری کی ذمہ داری سونپی تھی ۔ بہترین نغمے ، موسیقی اوراداکاری سے آراستہ فلم محل کی کامیابی نے ناصرف گلوکارہ لتا منگیشکر کے فلمی کیریئر کو صحیح سمت دی بلکہ فلم کی ہیروئن مدھوبالا کو اسٹارکے طورپر قائم کردیا۔
سال 1952 میں کمال امروہی نے اداکارہ مینا کماری سے شادی کرلی۔ اس وقت کمال امروہی اورمینا کماری کی عمر میں کافی فرق تھا ۔ کمال امروہی 34 سال کے تھے جبکہ مینا کماری کی عمر تقریباً 20 برس تھی۔
محل کی کامیابی کے بعد کمال امروہی نے کمال پکچرس اورکمالستان اسٹوڈیوقائم کیا ۔ کمال پکچرس کے بینر کے تحت انھوں نے مینا کماری کو لیکر فلم دائر ہ بنائی لیکن یہ فلم کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔
یہ بھی پڑھیے
اسی دوران کمال امروہی کو 'کے آصف' کی سنہ 1960 میں آئی فلم مغل اعظم میں مکالمے لکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم کیلئے وجاہت مرزا مکالمے لکھ رہے تھے لیکن کے آصف کو محسوس ہوا کہ ایک ایسے مکالمہ نگار کی ضرورت ہے جس کے لکھے ڈائلاگ ناظرین کے دماغ سے برسہابرس نہیں نکل پائیں اور اس کے لئے انھوں نے کمال امروہی کو اپنے چارمکالمہ نگار وں میں شامل کرلیا۔ اور پھر اس فلم کیلئے کمال امروہی کو بہترین مکالمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔
ساٹھ کی دہائی میں کمال امروہی اورمینا کماری کی شادی شدہ زندگی میں درار آگئی اوردونوں الگ رہنے لگے۔ اس درمیان کمال امروہی نے اپنی فلم پاکیزہ میں مصروف رہے۔ اس فلم کے بننے میں تقریباً 14 سال لگ گئے۔ کمال امروہی اور مینا کمار ی علایحدہ ہوگئے تھے پھر بھی کمال امروہی نے فلم کی شوٹنگ جاری رکھی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ پاکیزہ جیسی فلموں کے پروڈکشن کا موقع باربار نہیں مل پاتا ہے۔ 1972 میں جب پاکیزہ ریلیز ہوئی تھی تو فلم میں کمال امروہی کی ہدایت کاری کی صلاحیت اورمیناکماری کی اداکاری کو دیکھ کر ناظرین حیران رہ گئے۔
یہ بھی پڑھیے
عام آدمی پارٹی میں جشن
دہلی اسمبلی انتخابات: نتائج کے بعد کا منظر کیسا ہوگا؟
پاکیزہ بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ مینا کمار ی کی موت کے بعد انھوں نے فلم انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سنہ 1983 میں کمال امروہی نے ایک بار پھر سے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اورفلم رضیہ سلطان کی ہدایت کاری کی ۔ بڑے پیمانے پر بنی اس فلم میں کمال امروہی نے ایک بار پھر اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا لیکن ناظرین کو یہ فلم پسند نہیں آئی اوربری طرح فلاپ ہوگئی۔ نوے کی دہائی میں کمال امروہی آخری مغل نام سے ایک فلم بنانا چاہتے تھے لیکن ان کا یہ خواب حقیقت نہیں بن پایا۔
اپنے کمال سے ناظرین کے دلوں میں خاص پہچان بنانے والے کمال امروہی 11 فروری 1993 میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
جو کہی گئی نہ مجھ سے وہ زمانہ کہ رہا ہے
کہ فسانہ بن گئی ہے، میری بات چلتے چلتے
یہ بھی پڑھیے
رجحانات میں عام آدمی پارٹی کو سبقت
دہلی نتائج: شاہین باغ کے اوکھلا سے امانت اللہ خان کو برتری