ETV Bharat / state

Sir Syed Day 2022 اے ایم یو میں یوم سرسید کی مناسبت سے لیکچرکا اہتمام

author img

By

Published : Oct 14, 2022, 12:40 PM IST

مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمان سیاسی، سماجی اور معاشی بحران سے دو چار تھے۔ ان حالات میں سر سید نے برطانوی حکومت اور بھارت کے مسلمانوں کے درمیان مواصلاتی خلیچ کو باٹنے کے لئے اپنی کئی تخلیقات لکھیں'۔

اے ایم یو میں یوم سرسید کی مناسبت سے لیکچر منعقد
اے ایم یو میں یوم سرسید کی مناسبت سے لیکچر منعقد

علی گڑھ: علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ کے زیر اہتمام 'پرامن بقائے باہمی کی سرسید کی کاوش' موضوع پر آرٹس فیکلٹی کے لاؤنج میں ایک لیکچر کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوران پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے 1850 کی دہائی میں شمالی ہند میں معاشرے میں تکثیریت اور بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے سرسید کی کوششوں کو سیاق و سباق کے حوالے سے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسلم کمیونی کے لیے ایک ہنگامہ خیز دور تھا جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا تھا اور مسلمان سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کے شکار تھے۔ سرسید نے اپنی کئی تصنیفات اس وقت لکھی جب عمومی ماحول پر فرقہ وارانہ مباحثوں اور مشنری سرگرمیوں کا غلبہ تھا۔ پروفیسر قدوائی نے کہا کہ سرسید نے اپنے دور کے مسلمانوں میں مفاہمت، رواداری اور دوسروں سے تال میل کا احساس پیدا کیا تاکہ وہ درپیش چیلنجوں سے نمٹ سکیں۔

مزید پڑھیں:

پروفیسر قدوائی نے کہا "سر سید نے غیر مسلم بھائیوں کو انگلینڈ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی بھی ترغیب دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم اے یو کالج کی تعمیر کے لیے 120 عطیہ دہندگان میں سے 80 عطیہ دہندگان ہندو اور عیسائی تھے۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے مزید کہا ”اس طرح سرسید نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے بھارت کو اپنے دل کے قریب رکھا اور معاشرے میں تہذیب اور باہمی احترام کو پروان چڑھایا"۔ اس موقع پر پروفیسر شان محمد (سابق ڈائرکٹر سر سید اکیڈمی اے ایم یو) نے کہا 'سرسید کی علمی کاوشیں ان کی دور اندیشی اور پر حوصلہ رویہ کا مظہر تھیں، کیونکہ انہوں نے اپنی تصنیفات خاص طور پر سیاسی انتشار کے دور میں لکھیں۔ 1857 کی بغاوت میں دہلی شہر کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا، اس نے مسلم دانشوروں کو بہت حیران و پریشان اور حکومت کی طرف سے ہر قسم کی حمایت سے محروم کر دیا۔ ان حالات میں سر سید نے برطانوی حکومت اور بھارت کے مسلمانوں کے درمیان مواصلاتی خلیچ کو باٹنے کے لئے اپنی کئی تخلیقات لکھیں'۔

علی گڑھ: علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ کے زیر اہتمام 'پرامن بقائے باہمی کی سرسید کی کاوش' موضوع پر آرٹس فیکلٹی کے لاؤنج میں ایک لیکچر کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوران پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے 1850 کی دہائی میں شمالی ہند میں معاشرے میں تکثیریت اور بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے سرسید کی کوششوں کو سیاق و سباق کے حوالے سے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسلم کمیونی کے لیے ایک ہنگامہ خیز دور تھا جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا تھا اور مسلمان سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کے شکار تھے۔ سرسید نے اپنی کئی تصنیفات اس وقت لکھی جب عمومی ماحول پر فرقہ وارانہ مباحثوں اور مشنری سرگرمیوں کا غلبہ تھا۔ پروفیسر قدوائی نے کہا کہ سرسید نے اپنے دور کے مسلمانوں میں مفاہمت، رواداری اور دوسروں سے تال میل کا احساس پیدا کیا تاکہ وہ درپیش چیلنجوں سے نمٹ سکیں۔

مزید پڑھیں:

پروفیسر قدوائی نے کہا "سر سید نے غیر مسلم بھائیوں کو انگلینڈ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی بھی ترغیب دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم اے یو کالج کی تعمیر کے لیے 120 عطیہ دہندگان میں سے 80 عطیہ دہندگان ہندو اور عیسائی تھے۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے مزید کہا ”اس طرح سرسید نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے بھارت کو اپنے دل کے قریب رکھا اور معاشرے میں تہذیب اور باہمی احترام کو پروان چڑھایا"۔ اس موقع پر پروفیسر شان محمد (سابق ڈائرکٹر سر سید اکیڈمی اے ایم یو) نے کہا 'سرسید کی علمی کاوشیں ان کی دور اندیشی اور پر حوصلہ رویہ کا مظہر تھیں، کیونکہ انہوں نے اپنی تصنیفات خاص طور پر سیاسی انتشار کے دور میں لکھیں۔ 1857 کی بغاوت میں دہلی شہر کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا، اس نے مسلم دانشوروں کو بہت حیران و پریشان اور حکومت کی طرف سے ہر قسم کی حمایت سے محروم کر دیا۔ ان حالات میں سر سید نے برطانوی حکومت اور بھارت کے مسلمانوں کے درمیان مواصلاتی خلیچ کو باٹنے کے لئے اپنی کئی تخلیقات لکھیں'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.