لکھنؤ: ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی نیک نفس، مجسم اخلاق پیکر اخلاق اور سراپا مروت تھے۔ وہ اپنے طلبہ کے تئیں شفیق و محترم ہونے کے ساتھ ساتھ ہمدرد بھی تھے اور ان کے دکھ درد اور مسائل کو سنتے، سمجھتے اور حل کرنے کی ممکنہ کوشش کرتے تھے۔ درس و تدریس کے میدان میں اعلیٰ اصولوں کی پاسداری کے سبب ہی انہیں سماج کے ہر طبقہ میں عزت و احترام حاصل ہوا۔ ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کے بارے میں ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایمریٹس اور بنارس ہندو یونیورسٹی کی سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر ایمریٹس پروفیسر قمر جہاں نے کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
AMU Role in Indian Freedom Struggle ملک کی آزادی میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا کردار
بھارتیہ بھاشا اتسو کے تحت فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی حکومت اترپردیش کے اشتراک سے ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام سیمینار بعنوان "ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی شخصیت اور فن" کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر قمر جہاں نے مزید کہا کہ شجاعت علی سندیلوی درس و تدریس تک ہی محدود نہ رہے بلکہ انہوں نے اپنے بے کراں علم کو جنبش قلم کے ذریعہ صفحۂ قرطاس پر اس طرح بکھیرا کہ بڑے مفید اور معلوماتی مضامین سامنے آئے۔ مجھے ان کی شاگردہ ہونے پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا۔ اس سے قبل پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ممتاز پی جی کالج کی طالبہ ذاکرہ اور طالب علم عبدالعزیز نے بالترتیب ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کی تحریر کردہ حمد اور نعت پیش کی۔ رسم گل پوشی کے بعد ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی میموریل سوسائٹی کے صدر سہیل کاکوروی نے استقبالیہ کلمات ادا کیے۔
سوسائٹی کی منیجر ڈاکٹر پروین شجاعت نے ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی میموریل سوسائٹی کے اغراض و مقاصد پیش کیے۔ اس موقع پر بطور مہمان ذی وقار شعبۂ اردو لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر انیس اشفاق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی غیر محسوس طور پر طلبہ کے اندر تبدیلی پیدا کرتے تھے۔ اردو ان کے رگ و پے میں رچی بسی تھی۔ اردو کے تئیں کوئی مصلحت اور مصالحت سے کام نہیں لیتے تھے۔ وہ چاہتے تو حکومت سے اعلی سے اعلی عہدہ انہیں آسانی سے مل جاتا لیکن یہ ان کی انکساری تھی کہ انہوں نے اس طرح کا کوئی بھی عہدہ قبول نہیں کیا اور ہمیشہ علم و فن کی خدمت میں منہمک رہے۔ ان کی شخصیت اگر ایک جملہ میں بیان کی جائے تو وہ شرافت کا بدر منیر تھے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے سابق ڈین پروفیسر وہاج الدین علوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شجاعت علی سندیلوی صاحب کے علمی و عملی کارناموں پر کئی سیمینار درکار ہیں۔ اپنی زبان اردو اور اپنی کتابوں سے انہیں والہانہ عشق تھا۔ مادری زبان اردو کی ترقی، توسیع و ترویج کے لیے شجاعت علی سندیلوی عملی کوششوں پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا تعلق سندیلہ سے تھا۔ جو اودھ کی علمی و ادبی فضا کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے اودھ کو سمجھنا ضروری ہے۔
شعبۂ ماس کمونیکیشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کا شاگرد رہا ہوں ان کے پڑھانے کا انداز بے حد نرالا تھا۔ ان کی شخصیت کا مرکزی حوالہ شاگردوں پر ان کی بے مثال شفقت اور ان کی دستگیری کرنا تھا۔ وہ طلبہ کی نشو ونما اور ان کی شخصیت کی آبیاری پر خاص توجہ کرتے تھے۔ وہ اردو کاز کے لیے عمر بھر سرگرم عمل رہے اور اپنی زبان سے محبت کی نئی نئی منزلوں کا پتہ دیتے رہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے تشریف لائے پروفیسر سید سراج الدین اجملی نے ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کی عالمانہ بصیرتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ شجاعت علی سندیلوی اور فروغ اردو لازم و ملزوم تھے۔ ان کا کارنامہ خاص تھا کہ جیل میں قیدیوں کو اردو کی لذتوں سے آشنا کیا۔ اودھ کے اہم خطے سندیلہ، کاکوری اور لکھنؤ ان کے علمی و عملی مراکز رہے۔ ان کے مزاج میں شرافت طبع کا ایک خاص عنصر تھا جو انہیں دیگر اساتذہ و دانشوروں میں ایک منفرد شناخت عطا کرتا ہے۔
خصوصی مقرر کے طور پر معروف صحافی اور ادیب احمد ابراہیم علوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شجاعت علی سندیلوی صاحب اردو کے مرد مجاہد کے طور پر جانیں جائیں گے۔ اردو زبان کی آبیاری اور اس کے فروغ کے لیے وہ تاحیات سرگرم عمل رہے۔ اردو محبت کی زبان ہے اور شجاعت صاحب اس کے ترجمان ہیں۔ ہم لوگ اگر اس فکری وراثت کے نگہبان بھی بن سکیں تو بہت ہے۔ کرامت حسین مسلم گرلز پی جی کالج کی سابق پرنسپل ڈاکٹر صبیحہ انور نے کہا کہ شجاعت علی سندیلوی نے اپنی تحقیق کے موضوع طور پر خواجہ الطاف حسین حالی کی شاعری کا انتخاب کیا۔ حالی کی ذہنی رو اور ان کی انسانیت کا مادہ اپنے سے ملتے جلتے پایا۔ شجاعت علی سندیلوی ہمیشہ بحیثیت استاد اپنے طلبہ کے ساتھ انسیت رکھتے تھے۔ درد مندی کا شوق اور جذبہ ان کے اندر رچا بسا تھا۔ وہ ہمیشہ ایک عملی شخص رہے بولتے کم تھے اور کم سے کم الفاظ میں اپنا مفہوم ادا کرتے تھے لیکن جہاں عمل کا معاملہ ہوتا تھا وہ سب سے آگے رہنے کی کوشش کرتے تھے خواہ وہ اردو تحریک ہو یا اردو تعلیم، سب جگہ انہوں نے اپنی موجودگی کا ثبوت دیا۔
اس موقع پر فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے سیکرٹری مناظر عادل حسن، اتر پردیش اردو اکیڈمی کے سابق سیکرٹری ایس رضوان سمیت سجادہ نشین خانقاہ کاظمیہ شاہ عین الحیدر ضیاء میاں، ضیاء علوی، پروفیسر جمال نصرت، محسن خان ڈاکٹر ہما خواجہ، فدا حسین انصاری، ڈاکٹر عتیق فاروقی، پروفیسر وندنا مشرا، بیگم شافع قدوائی، بیگم وہاج الدین علوی، سنتوش کمار بالمیکی، پروفیسر رمیش دیکشت، راجیو پرکاش ساحر، پرویز ملک زادہ، ڈاکٹر ثروت تقی، عارف نگرامی، ڈاکٹر عبدالرحیم، ڈاکٹر مدنی انصاری، وقار احسن، شہیر مرزا، شمع ظفر، ڈاکٹر مخمور کاکوروی، ڈاکٹر اسلم مرتضیٰ سمیت کثیر تعداد میں معزز شرکا موجود رہے۔
پروگرام کی نظامت کھن کھن جی گلز پی جی کالج کے شعبۂ اردو کی صدر پروفیسر ریشماں پروین نے کی۔ نوجوان ناظم عاصم کاکوروی نے بخوبی ان کا ساتھ دیا۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں سوسائٹی کے سیکرٹری محمد شکیل الدین سمیت ڈاکٹر یاسر جمال، محمد توفیق اور کیپٹن ذیشان شکیل نے اپنا اہم تعاون پیش کیا۔ آخر میں ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کے فرزند رشید ثروت پرویز نے تمام مہمانان اور حاضرین جلسہ کا خلوص دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا۔