اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کا محرم پورے ملک میں منفرد شناخت رکھتا ہے۔ نوابی طور طریقے اور شاہی جلوس اسے مزید بارونق بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنو کا بڑا طبقہ جو محرم کے حوالے سے کاروباری کرتا تھا موجودہ وقت میں فاقہ کشی کے دہانے پر ہے کیوں کہ کورونا وائرس کے سبب تمام کاروبار ٹھپ پڑے ہیں۔
گزشتہ دو برس سے کورونا کے خوف و حکومت انتظامیہ کی بندشوں میں محرم کے جلوس منعقد ہورہے ہیں جس سے کاروبار سخت متاثر ہوا ہے بیشتر کاروباریوں نے اپنے پُشتینی کاروبار کو چھوڑ کر دوسرے کام کو ذریعہ معاش بنا لیا۔
لکھنؤ کے کاظمین علاقے میں شاہ نجف والی روڈ پر بڑے پیمانے پر تعزیہ بنانے والے کاریگر 6 ماہ قبل ہی تعزیہ بنانا شروع کرتے تھے اور محرم کے ایام میں لکھنؤ و اطراف کے اضلاع سے تعزیہ خریدار آتے تھے لیکن کورونا وائرس و حکومتی بندشوں نے گزشتہ دو برس سے کاروبار کو سخت متاثر کیا ہے۔
تعزیہ کاریگر حسن رضا بتاتے ہیں گزشتہ برس 2 لاکھ روپے کی بھی تعزیہ فروخت نہیں ہوئی تھی اور گزشتہ برس کی تعزیہ کو اس برس بھی فرخت کررہے ہیں۔
اس برس کوئی نئی تعزیہ نہیں بنائی گئی۔ کاروبار اس قدر متاثر ہوا کہ گھر کا خرچ بھی اب مشکل ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر کاریگر قرض لے کر یہ کام کرتے ہیں جن لوگوں نے قرض لیا تھا اب وہ قرض کی ادائیگی بھی نہیں کر پارہے ہیں۔ بعض کاریگر فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔
حسن رضا نے بتایا کہ 'محرم کے ایام میں تعزیہ فروخت کر کے اچھی آمدنی ہوتے تھی اور سال بھر اس سے خرچ چل جاتا تھا۔ تاہم گزشتہ دو برسوں سے محرم کے ایام میں تعزیہ فروخت نہیں ہو رہی ہے جس کہ وجہ سے اب لائٹ کا کام شروع کیا ہے۔
اسی علاقے میں عَلم کے پٹکے کے تاجر سید ساجد حسین رضوی نے بتایا کہ کورونا نے اس کام کو کافی نقصان پہنچایا ہے لکھنؤ کا پٹکہ ملک و بیرون ملک بھیجا جاتا تھا یہاں کے پٹکہ پر فن زردوزی کا بہترین کام ہوتا ہے لیکن رواں برس یہ کام آخری سانس لے رہا ہے اور کاریگر اب ای رکشا چلانے پر مجبور ہوگئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'جو لوگ یہ کام چھوڑتے ہیں وہ واپس اس کام پر نہیں آتے ایسے میں خدشہ ہے کہ لکھنؤ کے اس قدیم روایتی کام کے کاریگر ختم ہوجائیں گے۔
اس کے علاوہ لکھنوی چکن کے کپڑے کا محرم کے ایام میں بڑے پیمانے پر کاروبار ہوتا تھا خاص کر کالے چکن کپڑے خوب فروخت ہوتے تھے لیکن کورونا گائیڈ لائنز کی وجہ سے اب کاروباریوں میں مایوسی ہے۔