ETV Bharat / state

سابق آئی پی ایس، آر دارا پوری سے خصوصی گفتگو - شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج

سابق آئی پی ایس افسر ایس آر دارا پوری نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کے دوران اتر پردیش پولیس اور مرکزی حکومت پر نکتہ چینی کی۔

سابق آئی پی ایس آر دارا پوری سے خصوصی گفتگو
سابق آئی پی ایس آر دارا پوری سے خصوصی گفتگو
author img

By

Published : Jan 16, 2020, 9:02 PM IST

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لکھنئو میں ہوئے احتجاج کے بعد کئی سماجی کارکنان کو نظر بند کر دیا گیا تھا، پولیس نے ان کی گرفتاری کی وجہ احتجاج میں شامل ہونا بتائی، انہی میں سابق آئی پی ایس افسر 'ایس آر دارا پوری' بھی شامل تھے۔

سابق آئی پی ایس آر دارا پوری سے خصوصی گفتگو، ویڈیو

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن و سابق آئی پی ایس، ایس آر دارا پوری نے بتایا کہ '19 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کے لیے 'پریورتن چوک' کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن 19 تاریخ سے قبل ہی ضلع انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کردیا باوجود اس کے کسی کو بتایا نہیں گیا جو کہ بالکل غلط تھا۔

دارا پوری نے بتایا کہ '19 دسمبر کی صبح ہی مجھے پولیس نے گھر میں نظر بند کر دیا لیکن بعد میں پولیس گرفتار کرکے لے گئی اور احتجاج میں شامل ہونے کی بات کہی جو کہ بے بنیاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے پولیس ریمانڈ میں لینے کے لیے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا لیکن انہوں نے پولیس ریمانڈ دینے سے صاف انکار کردیا کیوں کہ پولیس میرے خلاف ثبوت پیش نہیں کر سکی۔

دارا پوری نے مزید کہا کہ 'پولیس نے زیادہ تر لوگوں کو 19 دسمبر کو گرفتار کیا لیکن ان کی گرفتاری کافی بعد میں دکھائی گئی۔ اس کے علاوہ سماجی کارکنان کو بری طرح زد و کوب کیا گیا یہاں تک کہ مذہب کے نام پر مسلم نوجوانوں کے ساتھ ظلم و ستم ڈھائے گئے۔

واضح رہے کہ کانگریس رہنما صدف ظفر، سماجی کارکن دیپک کبیر، پون امبیڈکر جیسے لوگوں کو بھی پولیس نے بری طرح مارا پیٹا تھا حالانکہ اب ان سبھی کی رہائی ہو گئی ہے۔

سابق آئی پی ایس دارا پوری نے کہا کہ 'پولیس نے ایسے نوجوان لڑکوں کو بھی گرفتار کیا جو اپنے رشتے داروں کو ڈھونڈنے کے لیے پولیس اسٹیشن آئے تھے۔

دارا پوری نے مزید کہا کہ 'حضرت گنج تھانہ میں جو لوگ حراست میں لیے گئے تھے ان سے نام پوچھ کر الگ الگ بٹھایا گیا تھا، وہاں پر ایسے لوگ بھی تھے جن کا تعلق بی جے پی اور آر ایس ایس سے تھا اور انہیں فون کرنے کی سہولت دی گئی تھی جبکہ بعد میں ان سب کو چھوڑ دیا گیا تھا جبکہ مسلم نوجوانوں کو جیل میں بند کرکے بری طرح پیٹا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس تشدد کے پیچھے بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس اور پولیس کا ہاتھ ہے کیونکہ وہاں پرسکون مظاہرہ ہو رہا تھا لیکن شام ہوتے ہی یہ مظاہرہ پر تشدد ہو گیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'اگر حکومت بات چیت کرنا ہی چاہتی تو وہ احتجاج کو دباتی نہیں بلکہ ہم سے بات کرتی لیکن حکومت نے طاقت کے زور پر عوام کی آواز کو خاموش کرنے کا کام کیا۔

انہوں نے لکھنئو پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ 'پولیس نے جن نوجوانوں کو تشدد برپا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے ان کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں تاکہ سب کچھ واضح ہو جائے'۔

ایس آر دارا پوری نے کہا کہ 'ہم شہریت ترمیمی قانون کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے کیونکہ یہ مذہبی معاملہ نہ ہو کر ملک کے دستور کے خلاف ہے اس لیے ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی بات حکومت تک پہنچائیں۔

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لکھنئو میں ہوئے احتجاج کے بعد کئی سماجی کارکنان کو نظر بند کر دیا گیا تھا، پولیس نے ان کی گرفتاری کی وجہ احتجاج میں شامل ہونا بتائی، انہی میں سابق آئی پی ایس افسر 'ایس آر دارا پوری' بھی شامل تھے۔

سابق آئی پی ایس آر دارا پوری سے خصوصی گفتگو، ویڈیو

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن و سابق آئی پی ایس، ایس آر دارا پوری نے بتایا کہ '19 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کے لیے 'پریورتن چوک' کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن 19 تاریخ سے قبل ہی ضلع انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کردیا باوجود اس کے کسی کو بتایا نہیں گیا جو کہ بالکل غلط تھا۔

دارا پوری نے بتایا کہ '19 دسمبر کی صبح ہی مجھے پولیس نے گھر میں نظر بند کر دیا لیکن بعد میں پولیس گرفتار کرکے لے گئی اور احتجاج میں شامل ہونے کی بات کہی جو کہ بے بنیاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے پولیس ریمانڈ میں لینے کے لیے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا لیکن انہوں نے پولیس ریمانڈ دینے سے صاف انکار کردیا کیوں کہ پولیس میرے خلاف ثبوت پیش نہیں کر سکی۔

دارا پوری نے مزید کہا کہ 'پولیس نے زیادہ تر لوگوں کو 19 دسمبر کو گرفتار کیا لیکن ان کی گرفتاری کافی بعد میں دکھائی گئی۔ اس کے علاوہ سماجی کارکنان کو بری طرح زد و کوب کیا گیا یہاں تک کہ مذہب کے نام پر مسلم نوجوانوں کے ساتھ ظلم و ستم ڈھائے گئے۔

واضح رہے کہ کانگریس رہنما صدف ظفر، سماجی کارکن دیپک کبیر، پون امبیڈکر جیسے لوگوں کو بھی پولیس نے بری طرح مارا پیٹا تھا حالانکہ اب ان سبھی کی رہائی ہو گئی ہے۔

سابق آئی پی ایس دارا پوری نے کہا کہ 'پولیس نے ایسے نوجوان لڑکوں کو بھی گرفتار کیا جو اپنے رشتے داروں کو ڈھونڈنے کے لیے پولیس اسٹیشن آئے تھے۔

دارا پوری نے مزید کہا کہ 'حضرت گنج تھانہ میں جو لوگ حراست میں لیے گئے تھے ان سے نام پوچھ کر الگ الگ بٹھایا گیا تھا، وہاں پر ایسے لوگ بھی تھے جن کا تعلق بی جے پی اور آر ایس ایس سے تھا اور انہیں فون کرنے کی سہولت دی گئی تھی جبکہ بعد میں ان سب کو چھوڑ دیا گیا تھا جبکہ مسلم نوجوانوں کو جیل میں بند کرکے بری طرح پیٹا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس تشدد کے پیچھے بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس اور پولیس کا ہاتھ ہے کیونکہ وہاں پرسکون مظاہرہ ہو رہا تھا لیکن شام ہوتے ہی یہ مظاہرہ پر تشدد ہو گیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'اگر حکومت بات چیت کرنا ہی چاہتی تو وہ احتجاج کو دباتی نہیں بلکہ ہم سے بات کرتی لیکن حکومت نے طاقت کے زور پر عوام کی آواز کو خاموش کرنے کا کام کیا۔

انہوں نے لکھنئو پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ 'پولیس نے جن نوجوانوں کو تشدد برپا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے ان کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں تاکہ سب کچھ واضح ہو جائے'۔

ایس آر دارا پوری نے کہا کہ 'ہم شہریت ترمیمی قانون کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے کیونکہ یہ مذہبی معاملہ نہ ہو کر ملک کے دستور کے خلاف ہے اس لیے ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی بات حکومت تک پہنچائیں۔

Intro:شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لکھنؤ میں ہوئے احتجاج کے بعد کئی سماجی کارکنان کو نظر بند کر دیا گیا تھا لیکن پولیس نے ان کی گرفتاری احتجاج میں شامل ہونے کی بنیاد پر دیکھائی۔ انہی میں سابق آئی پی ایس 'ایس آر دارا پوری' بھی شامل تھے۔


Body:ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن و سابق آئی پی ایس، ایس آر دارا پوری نے بتایا کہ 19 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کے لیے 'پریورتن چوک' کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن 19 تاریخ سے پہلے ہی ضلع انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کردیا باوجود اس کے کسی کو بتایا نہیں گیا جو کہ بالکل غلط تھا۔

مسٹر دارا پوری نے بتایا کہ 19 دسمبر کی صبح ہی مجھے پولیس نے گھر میں نظر بند کر دیا لیکن بعد میں پولیس گرفتار کرکے لے گئی اور احتجاج میں شامل ہونے کی بات کہی جو کہ بے بنیاد الزام تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے پولیس ریمانڈ میں لینے کے لیئے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا لیکن انہوں نے پولیس ریمانڈ دینے سے صاف انکار کردیا کیوں کہ پولیس میرے خلاف ثبوت پیش نہیں کر سکی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس نے زیادہ تر لوگوں کو 19 دسمبر کو گرفتار کیا لیکن ان کی گرفتاری کافی بعد دکھائیں گئی تھی۔ اس کے علاوہ سماجی کارکنان کو بری طرح مارا پیٹا گیا یہاں تک کہ مذہب کے نام پر مسلم نوجوانوں کے ساتھ ظلم و ستم ڈھائے گئے۔

واضح رہے کہ کانگریسی لیڈر صدف ظفر، سماجی کارکن دیپک کبیر، پون امبیڈکر جیسے لوگوں کو بھی پولیس نے بری طرح مارا پیٹا تھا حالانکہ اب ان سبھی کی رہائی ہو گئی ہے۔

سابق آئی پی ایس دارا پوری نے کہا کہ پولیس نے ایسے نوجوان لڑکوں کو بھی گرفتار کیا جو اپنے رشتے داروں کو ڈھونڈنے کے لئے تھانہ آئے تھے۔

دارا پوری نے مزید بتایا کہ حضرت گنج تھانہ میں جو لوگ حراست میں لیے گئے تھے ان کے نام پوچھ کر الگ الگ بٹھایا گیا تھا۔ وہاں پر ایسے لوگ بھی تھے جن کا تعلق بی جے پی اور آر ایس ایس سے تھا۔

انہیں فون کرنے کی سہولت دی گئی تھی اور بعد میں ان سب کو وہیں سے چھوڑ دیا گیا تھا جبکہ مسلم نوجوانوں کو جیل میں بند کرکے جانوروں کی طرح ان کے ساتھ سلوک کیا گیا۔

انہوں نے صاف طور پر کہا کہ اس تشدد کے پیچھے بھاجپا، آر ایس ایس اور پولیس کا ہاتھ ہے کیونکہ وہاں پر سکون مظاہرہ ہو رہا تھا لیکن شام ہوتے ہی پر تشدد ہو گیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت بات چیت کرنا ہی چاہتی تو وہ احتجاج کو دباتی نہیں بلکہ ہم سے بات کرتی لیکن حکومت نے طاقت کے زور پر عوام کی آواز کو خاموش کرنے کا کام کیا۔

انہوں نے لکھنؤ پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ، "پولیس نے جن نوجوانوں کو تشدد پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے ان کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں تاکہ سب کچھ دودھ کی طرح واضح ہو جائے۔"



Conclusion: ایس آر دارا پوری نے کہا کہ ہم شہریت ترمیمی قانون کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے کیونکہ یہ مذہبی معاملہ نہ ہو کر ملک کے دستور کے خلاف ہے۔ اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی بات حکومت تک پہنچائیں۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.