ETV Bharat / state

'خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کا نام تبدیل ہوا ہے، کام نہیں' - جبکہ یہ بالکل غلط ہے

دار الحکومت لکھنؤ میں واقع خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کا نام تبدیل کردیا گیا ہے، جس کے بعد اس پر سیاست شروع ہوگئی۔

'خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کا نام تبدیل ہوا ہے، کام نہیں'
'خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کا نام تبدیل ہوا ہے، کام نہیں'
author img

By

Published : Feb 29, 2020, 10:06 AM IST

Updated : Mar 2, 2020, 10:42 PM IST

ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع واجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کا نام تبدیل کردیا گیا ہے۔

'خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کا نام تبدیل ہوا ہے، کام نہیں'

یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہا کہ نام تبدیل کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس سے طلباء کو زیادہ فائدہ ہوگاڈ

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران شیخ الجامعہ پروفیسر ماہ رخ مرزا نے بتایا کہ خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کے نام تبدیل ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہےڈ

کچھ لوگ بلاوجہ اس مدی کو اچھال رہے ہیں۔ پروفیسر مرزا نے بتایا کہ اردو عربی شعبہ کا یہ حال ہے کہ وہاں زیادہ تر سیٹ خالی ہی رہ جاتی ہیں۔

بہت مشکل سے فارسی زبان میں 20-25 طلباء مل پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی سرکاری ہے اور اس یونیورسٹی کو وہ سارے اختیارات حاصل ہیں، جو دوسرے یونیورسٹیز کو ہیں۔

عوام میں یہ غلط پیغام گیا ہےکہ خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی میں تعلیم کا میڈیم اردو زبان ہے، جبکہ یہ بالکل غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم سماج بھی اپنے بچوں کا داخلہ یہاں نہیں کرواتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو اردو، عربی، فارسی نہیں پڑھانا چاہتے۔

پروفیسر ماہ رخ مرزا نے کہا کہ یہ غلط افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یونیورسٹی سے اردو، عربی اور فارسی ختم کیا جا رہا ہے، ایسا نہیں ہے۔

صرف نام بدل کر 'خواجہ معین الدین چستی بھاشا یونیورسٹی' کر دیا گیا ہے۔

وائس چانسلر نے کہا کہ اس سے یہاں پر اردو، عربی، فارسی زبان کے علاوہ جرمن، جاپانی، فرنچ، سنسکرت اور دوسری زبانیں بھی آجائیں گی، جس سے طلباء کو زیادہ فائدہ ہوگا اور انہیں روزگار حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو صرف اردو عربی زبان روزگار کے مواقع فراہم نہیں کرا سکتی۔

قابل ذکر ہے کہ اردو شعبہ میں 14 سیٹیں ہیں لیکن طلباء کی تعداد بہت کم ہے۔ یہی حال عربی اور فارسی کا ہے۔

پروفیسر مرزا نے کہا کہ اگر یونیورسٹی کا نام تبدیل نہیں ہوتا اور اس میں دوسری زبانیں شامل نہیں کی جاتی، تو مجبوراً

بچوں کی فیس میں اضافہ کیا جاتا کیونکہ حکومت کب تک گھاٹے کا سودا کرتی؟

عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یونیورسٹی 'اقلیتی' ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ ماہ رخ مرزا نے کہا کہ اگر اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ ہمارے یہاں سے خد کو وابستہ کر لے اور اپنے مدارس میں 'کامل اور فاضل' کی جگہ بی اے اور ایم اے کروائے تو یقینی طور پر طلباء بڑے پیمانے پر مستفید ہوں گے۔

غور طلب ہے کہ 'ابھی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے منشی/مولوی اور عالم کو ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن کامل، فاضل کو بی اے اور ایم اے کے طور پر نہیں مانا جاتا۔'

جس وجہ سے مدرسہ بورڈ سے کامل اور فاضل کرنے سے طلباء کو کوئ فائدہ نہیں، صرف وقت کی بربادی ہے۔ ماہ رخ مرزا نے کہا کہ اگر مدرسہ بورڈ ہم سے تعاون کرتا ہے، تو 'ہم انہیں اپنے مدارس میں ہی بی اے اور ایم اے کورس چلانے کی اجازت دیں گے۔'

وہ اپنے یہاں ہی بچوں کو تعلیم دیں اور ہم اس کی ڈگری دیں گے، جس کی ہر جگہ اہمیت ہوگی اور طلباء کو روزگار حاصل کرنے میں سہولت رہے گی۔

وہیں راشٹریہ ہندو منچ کے صدر اندریش کمار کو خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی سے 'ڈاکٹریٹ' کی ڈگری دی گئی تھی، جس کے بعد سوال اٹھنا لازمی تھا کہ مسٹر اندریش نے سماج اور ملک کے لئے کون سا بہتر کام کیا؟ پروفیسر مرزا نے کہا کہ انہوں مسلم سماج کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس لیے انہیں ڈگری دے کر کوئی غلط نہیں کیا گیا۔

ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع واجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کا نام تبدیل کردیا گیا ہے۔

'خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کا نام تبدیل ہوا ہے، کام نہیں'

یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہا کہ نام تبدیل کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس سے طلباء کو زیادہ فائدہ ہوگاڈ

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران شیخ الجامعہ پروفیسر ماہ رخ مرزا نے بتایا کہ خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کے نام تبدیل ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہےڈ

کچھ لوگ بلاوجہ اس مدی کو اچھال رہے ہیں۔ پروفیسر مرزا نے بتایا کہ اردو عربی شعبہ کا یہ حال ہے کہ وہاں زیادہ تر سیٹ خالی ہی رہ جاتی ہیں۔

بہت مشکل سے فارسی زبان میں 20-25 طلباء مل پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی سرکاری ہے اور اس یونیورسٹی کو وہ سارے اختیارات حاصل ہیں، جو دوسرے یونیورسٹیز کو ہیں۔

عوام میں یہ غلط پیغام گیا ہےکہ خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی میں تعلیم کا میڈیم اردو زبان ہے، جبکہ یہ بالکل غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم سماج بھی اپنے بچوں کا داخلہ یہاں نہیں کرواتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو اردو، عربی، فارسی نہیں پڑھانا چاہتے۔

پروفیسر ماہ رخ مرزا نے کہا کہ یہ غلط افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یونیورسٹی سے اردو، عربی اور فارسی ختم کیا جا رہا ہے، ایسا نہیں ہے۔

صرف نام بدل کر 'خواجہ معین الدین چستی بھاشا یونیورسٹی' کر دیا گیا ہے۔

وائس چانسلر نے کہا کہ اس سے یہاں پر اردو، عربی، فارسی زبان کے علاوہ جرمن، جاپانی، فرنچ، سنسکرت اور دوسری زبانیں بھی آجائیں گی، جس سے طلباء کو زیادہ فائدہ ہوگا اور انہیں روزگار حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو صرف اردو عربی زبان روزگار کے مواقع فراہم نہیں کرا سکتی۔

قابل ذکر ہے کہ اردو شعبہ میں 14 سیٹیں ہیں لیکن طلباء کی تعداد بہت کم ہے۔ یہی حال عربی اور فارسی کا ہے۔

پروفیسر مرزا نے کہا کہ اگر یونیورسٹی کا نام تبدیل نہیں ہوتا اور اس میں دوسری زبانیں شامل نہیں کی جاتی، تو مجبوراً

بچوں کی فیس میں اضافہ کیا جاتا کیونکہ حکومت کب تک گھاٹے کا سودا کرتی؟

عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یونیورسٹی 'اقلیتی' ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ ماہ رخ مرزا نے کہا کہ اگر اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ ہمارے یہاں سے خد کو وابستہ کر لے اور اپنے مدارس میں 'کامل اور فاضل' کی جگہ بی اے اور ایم اے کروائے تو یقینی طور پر طلباء بڑے پیمانے پر مستفید ہوں گے۔

غور طلب ہے کہ 'ابھی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے منشی/مولوی اور عالم کو ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن کامل، فاضل کو بی اے اور ایم اے کے طور پر نہیں مانا جاتا۔'

جس وجہ سے مدرسہ بورڈ سے کامل اور فاضل کرنے سے طلباء کو کوئ فائدہ نہیں، صرف وقت کی بربادی ہے۔ ماہ رخ مرزا نے کہا کہ اگر مدرسہ بورڈ ہم سے تعاون کرتا ہے، تو 'ہم انہیں اپنے مدارس میں ہی بی اے اور ایم اے کورس چلانے کی اجازت دیں گے۔'

وہ اپنے یہاں ہی بچوں کو تعلیم دیں اور ہم اس کی ڈگری دیں گے، جس کی ہر جگہ اہمیت ہوگی اور طلباء کو روزگار حاصل کرنے میں سہولت رہے گی۔

وہیں راشٹریہ ہندو منچ کے صدر اندریش کمار کو خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی سے 'ڈاکٹریٹ' کی ڈگری دی گئی تھی، جس کے بعد سوال اٹھنا لازمی تھا کہ مسٹر اندریش نے سماج اور ملک کے لئے کون سا بہتر کام کیا؟ پروفیسر مرزا نے کہا کہ انہوں مسلم سماج کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس لیے انہیں ڈگری دے کر کوئی غلط نہیں کیا گیا۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 10:42 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.