اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 40 طلبا کو ملنے کے لیے مدعو کیا تھا لیکن ان میں سے کوئی نہیں آیا۔
لکھنؤ میں آج سات کشمیری طلبا کا وفد وزیراعلی یوگی سے ملاقات کرنے آیا تھا۔ صحافیوں سے بات چیت کے دوران کشمیری طلبا نے کہا کہ' ہم اس لیے ملاقات کرنے آئے تھے تاکہ انہیں یہ بتا سکیں کہ کشمیر کی زمینی حقیقت کیا ہے؟'
انہوں نے کہا کہ' وادی میں کس طرح کی پریشانیوں سے ہمارے گھر والے دوچار ہیں یہ بتانا ضروری تھا کیونکہ وہاں پر نہ تو انٹرنیٹ ہے اور نہ ہی فون کال کی سہولت؟
انہوں نے کہا کہ 'وزیراعلی سے صرف ایجوکیشن، انٹرنیٹ، فون کالز کے امور پر بات چیت ہوئی ہے۔ دفعہ 370 یا 35 اے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی سیاسی مسئلے پر۔'
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران طالبہ اقراء نے کہا کہ وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے صرف تعلیم اور کشمیر میں اپنے اہل خانہ اور دیگر سے بات چیت نہیں ہو پاتی ہے اس پر بات چیت ہوئی اور ہم نے انہیں بتایا کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ وہاں پر نہ تو فون کالز کرنے کی سہولت ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ بحال کیا گیا ہے۔۔'
انہوں نے کہا کہ' ہماری سیاسی پہلو پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ وزیر اعلی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کر لیا جائے گا۔'
ایک دورے طالب عالم امجد نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ' ہم نے وزیراعلی سے اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کیا۔ اس کے علاوہ جس علاقے میں ہم رہتے ہیں، وہاں کے جو بھی مسائل ہیں ان سے ڈسکس کی ہے تاکہ کوئی ہمیں پریشان نہ کرے۔'
امجد نے مزید کہا کہ' کشمیر میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم سب کا بیلنس تباہ ہوگیا ہے کیونکہ وہاں پر نا تو انٹرنیٹ ہے اور نہ ہی کسی کو باہر نکلنے کی آزادی۔'
انہوں نے کہا کہ 'جس طرح کشمیر کی عوام بنا انٹرنیٹ کے رہ رہی ہے اور کسی سے کوئی رابطہ قائم نہیں ہو پا رہا ہے۔ اسی طرح جو ہمارے رشتہ دار بیرونی ممالک میں رہتے ہیں وہ بھی وہاں بات چیت نہیں کر پاتے کیونکہ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے فون پر بات چیت کرنے میں بہت زیادہ پیسہ لگتا ہے۔'
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ' ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس ملاقات سے ہم پوری طرح مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک دفعہ 370 کی منسوخی کا سوال ہے تو ہم اس سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ جموں میں کچھ لوگ اس فیصلے کا خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن کشمیری عوام اس کے خلاف ہیں۔'
امجد نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ' یہ تو مستقبل ہی بتائے گا کہ دفعہ370 منسوخ کرنا صحیح فیصلہ تھا یا غلط؟ کیونکہ حکومت نے یہ فیصلہ وہاں کی عوام کے ساتھ تبادلہ خیال کرکے نہیں کیا ہے اور انکی مرضی کے بغیر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔'