دارالافتاء کانپور میں مسلم خواتین کا باپ کی میراث میں اور ترکہ کا مطالبہ لاک ڈاؤن کے دوران تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ خبر کانپور کے ایک ہندی اخبار میں چھپی تھی۔ جس پر کانپور کے مفتیان کرام نے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ شرعی عدالت میں میراث اور ترکہ کا لاک ڈاؤن کے دوران ایک بھی معاملہ نہیں آیا ہے۔
ہندی اخبار میں چھپی خبر پر جب علماء کرام سے بات کی گئی تو ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو کسی نہ کسی شکل میں پریشان کرنا یا ان کے شرعی مسئلہ مسائل میں کسی نہ کسی شکل میں مداخلت کرنا یا تنقید کرنا ایک عام سی بات ہوتی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں کانپور میں ایک ہندی اخبار نے یہ خبر چھاپی تھی کہ لاک ڈاؤن کے دوران مسلم خواتین کے شرعی عدالت اور دارالقضاء میں 55 ایسے معاملے آئے ہیں جس میں انہوں نے باپ کی میراث میں اپنے ترکہ کا مطالبہ کیا ہے۔ جن شرعی عدالتوں کا ہندی اخبار نے ذکر کیا تھا جب ان محکمہ شرعیہ کے مفتیان سے گفتگو کی تو پتہ چلا کہ یہ خبر بالکل غلط ہے۔
مفتی اقبال کا کہنا ہے کہ میرے یہاں تو میراث اور ترکہ کا ایک بھی معاملہ نہیں آیا ہے۔ وہیں مفتی رفیع احمد نظامی مصباحی کا کہنا ہے کہ میرے یہاں بھی ابھی اس طرح کا کوئی بھی کیس خصوصی طور سے نہیں آیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی حالیہ بنے قانون میں جو عورت کو میراث میں برابر کا حق دیا گیا ہے اس تعلق سے بھی میرے یہاں کوئی کیس نہیں آیا ہے اور ہمارے یہاں میراث کے تعلق سے جو بھی فیصلہ ہوتا ہے وہ شریعت کے مطابق ہوتا ہے۔ شریعت میں عورت کو جتنا حق دیا گیا ہے اسی کے مطابق ہمارے یہاں سے فیصلہ دیا جائے گا۔
مفتیان کرام اس طرح کی گمراہ کرنے والی خبروں کو لے کر کافی برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی خبروں کو شائع کر کے ایک خاص طبقہ کو خوش کرنا اور اس کی منشا کو پوری کرنے کے لئے کافی وقت سے کوشش کی جا رہی ہے جس کے خلاف جلد ہی اقدام کیا جائے گا۔