اترپردیش کی تقریبا نصف سیٹوں پر عام انتخابات کے لیے ووٹنگ ہو چکی ہے، باقی سیٹوں کے لیے پارٹی کے امیدوار انتخابی مہم میں اپنی پوری طاقت لگارہے ہیں۔ لیکن مشرقی اترپردیش کی بات کریں تو یہاں کچھ ایسے چہرے ہیں، جن کا اپنے علاقوں میں کافی اثر و رسوخ ہے۔
ان رہنماؤں کو 'باہوبلی' کہا جاتا ہے جو اپنے مجرمانہ ریکارڈ کے باوجود عوام میں کافی مقبول ہیں۔
مختار انصاری:
مختار انصاری مشرقی اتر پردیش کے باہوبلی رہنماء ہیں۔جن کا اثرو رسوخ کئی علاقوں میں ہے۔ ان کے نام کا سکہ آج بھی چلتا ہے۔ مختار انصاری کا رعب اترپردیش کے ضلع بنارس، جون پور، غازی پور اور مؤ میں آج بھی ہے۔ مختار انصاری مؤ اسمبلی حلقہ سے پانچ مرتبہ ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ ان پر متعدد مجرمانہ الزامات عائد ہیں۔
عتیق احمد:
بنارس پارلیمانی حلقہ میں عتیق احمد کا ایک زمانہ میں کافی اثر تھا۔ حالانکہ آج بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، ان کے چاہنے والے آج بھی موجود ہیں۔جب 2014 میں پورے ملک میں مودی لہر چل رہی تھی تب عتیق احمد پھول پور سے انتخاب جیت کر رکن پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔ سماج وادی پارٹی نے انہیں پھول پور سے ٹکٹ دیا تھا۔عتیق احمد ایک ایسے سیاسی رہنماء ہیں جن کا پورے مشرقی اترپردیش میں اثر و رسوخ ہے۔ عتیق احمد پر بھی کئی مجرمانہ مقدمات درج ہیں فی الحال وہ جیل میں ہیں۔
راجہ بھیا:
راجہ بھیا مشرقی اترپردیش کے معروف باہوبلی رہنماء ہیں۔ ضلع پرتاب گڑھ اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں بھی راجہ بھیا کا کافی رعب و دبدبہ ہے۔ راجہ بھیا کی ریلیوں میں عوام کی بھیڑ دیکھ کر ہی اپوزیشن پارٹیاں ان کی طاقت کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات 2019 سے قبل راجہ بھیا نے اپنی پارٹی 'جن ستا' کا اعلان کیا تھا اس کے بعد راجہ بھیا نے اپنے امیدواروں کو بھی میدان میں اتارا۔ جس کے بعد اپوزیشن پارٹیوں میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔
یہ وہ سیاسی رہنما ہیں جن پر مختلف قسم کے مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ یہ لوگ اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لیے ایسی وارداتوں کو انجام دیتے ہیں تاہم عوام ان کے اسی انداز کو پسند کرتی ہے۔ جن غریبوں کو بڑے سیاسی رہنما اور انتظامیہ سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے وہ ایسے ہی باہوبلی رہنماؤں کے پاس مدد کے لیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ عوام کی نظر میں محبوب ہیں۔