اتر پردیش کے ضلع جونپور میں آب و تاب سے کھڑی ہوئی شرقی و مغل دور کی تاریخی عمارتیں آج بھی اپنا جلوہ بکھیر رہی ہیں۔ ان میں سے چند عمارتیں ہی محفوظ و آباد ہیں جبکہ بیشتر عمارتیں بدحالی کا شکار ہو چکی ہیں۔
عمارتوں کے فن پارے و نقش و نگار کو دیکھ کر جہاں فنکاروں کے فن اور ان کی مہارت کا پتہ چلتا ہے وہیں، تاریخی عمارتیں تعمیر کروانے والے حکمرانوں کی تاریخ جاننے کا تجسس بھی دل میں پیدا ہوتا ہے۔
انہیں میں سے ایک شہر کے محلہ عمر خاں میں جامع الشرق شاہی مسجد کے اتری گیٹ سے متصل واقع عظیم الشان خانقاہ ہے جس کا اکثر و بیشتر حصہ گر کر مسمار و تباہ ہو گیا ہے۔
اس خانقاہ کو شاہان شرقیہ نے حفاظ کی رہائش اور بود و باش کی غرض سے تعمیر کروایا تھا تاکہ تلاوتِ کلامِ پاک سے شاہان شرقیہ کو ہمیشہ ایصالِ ثواب کرتے رہیں اور ان کے خورد و نوش کا انتظام بھی حکومتِ وقت کی جانب سے کیا جاتا تھا۔
اسی خانقاہ کے اتر حصہ میں پختہ قبرستان واقع ہے جس میں 75 قبریں موجود ہیں اور تمام مزارات اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں تمام شاہان شرقیہ،شہزادے،بیگمات اور اہل خاندان مدفون ہیں۔
ان میں چند مزارات پر کتبات بھی ہیں جن کا تعلق عہد شاہی سے ہے۔ قبرستان کے احاطہ میں شرقی بادشاہوں میں سب سے نیک عادل علم دوست بادشاہ سوئم ابراہیم شاہ شرقی کی بھی قبر ہے جو پتھر کی تعمیر ہے۔
عرصہ دراز سے رفتہ رفتہ قبر سنگ مرمر میں تبدیل ہو رہی ہے موجودہ وقت میں تقریباً قبر کا نصف حصہ سنگ مرمر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تاریخ داں و شاعر ڈاکٹر اختر سعید مسیحا جونپوری نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ۔
جونپور شاہان شرقیہ کا دارالحکومت تھا اور اس قبر میں شاہان شرقیہ اور ان کے متعلقین کو دفن کیا جاتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ حسین شاہ شرقی بادشاہ پنجم کا جب بنگال میں انتقال ہوا تو اس نے وصیت کی تھی کہ ان کی لاش کو جونپور میں ہی دفن کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ جہاں تک قبر کے سنگ مرمر میں تبدیل ہونے کی بات ہے تو یہ کیمیائی تغیری کی وجہ سے ہے اس کو کرامات سے منسلک کرکے دیکھنا مناسب نہیں ہے کیونکہ بڑے بڑے بزرگ اس دنیا میں گزرے ہیں ان کی قبریں تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔
مزید بتایا کہ عوام میں قبروں کی تعداد کے سلسلہ میں جو غلط فہمیاں ہیں کہ ہر بار شمار کرنے پر تعداد مختلف ہو جاتی ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے غلط عقیدہ کی وجہ سے اکثر لوگ بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آخر میں کہا کہ صاف صفائی نہ ہونے کی وجہ سے آپسی تنازعہ ہے جس کی وجہ سے صاف صفائی کا جتنا حق وہ ادا نہیں ہو رہا ہے۔
اس وقت تاریخ کی حامل عظیم خانقاہ کو بطورِ مکان استعمال کیا جا رہا ہے وہیں اس عظیم الشان پر شکوہ اور جاذب نظر خانقاہ و قبرستان کو دیکھنے کے لیے ملک و بیرون ملک سے سیاح اور مؤرخین و محقیقین آتے رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حیدرآباد: تبلیغ کا منفرد انداز
یہ خانقاہ تاریخ کا عظیم سرمایہ ہے اس کے چہار جانب موجود گندگی و غلاظت اور تعفن اہل جونپور کے چہرے پر بدنما داغ ہے جس کو عہد حاضر اور مستقبل کا مؤرخ کبھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔