جون ایلیا ایک ساتھ شاعر، صحافی، مفکر، مترجم، نثر نگار اور دانشور بہت کچھ تھے۔ وہ 14 دسمبر 1934 کو بھارت کی ریاست اترپردیش کے امروہہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید جون اصغر تھا۔ جون کی شاعری نے نہ صرف اپنے زمانے میں زبان و بیان کے معیار متعین کیے بلکہ آنے والی نئی نسل نے بھی ان سے خوب فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ بھی لگایا۔ جون کی شاعری نے نہ صرف اپنے زمانے میں زبان و بیان کے معیار متعین کیے بلکہ آنے والی نئی نسل نے بھی ان سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جون ایلیا نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ بھی لگایا۔ Special Story on Jaun Elia Birthday
یہ بھی پڑھیں:
جون کمیونسٹ ہونے کے باوجود فن برائے فن کے قائل تھے۔ انہوں نے رومانی شاعری سے دامن بچاتے ہوئے، تازہ بیانی کے ساتھ دلوں میں اتر جانے والی عشقیہ شاعری کی۔ جون ایلیا کی شاعری کے مزاج کا انداز ان کی اس تحریر سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے لکھا "اپنی ولادت کے تھوڑی دیر بعد چھت کو گھورتے ہوئے میں عجیب طرح ہنس پڑا جب میری خالاؤں نے یہ دیکھا تو ڈر کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اس بے محل ہنسی کے بعد میں آج تک کھل کر نہیں ہنس سکا" یا "آٹھ برس کی عمر میں میں نے پہلا عشق کیا اور پہلا شعر کہا"۔ Jaun Elia Birth Anniversary
جون ایلیا کو بچپن میں ہی عشق ہو گیا تھا جس کے متعلق انہوں نے خود اس کا ذکر بھی کیا تھا اور اپنی مصنوعی معشوقہ کے نام خطوط بھی لکھا کرتے تھے۔ نوجوانی کی عمر میں جب ایک دوشیزہ سے عشق کیا تو کبھی اظہار محبت نہ کر سکے۔ اس کے بعد ان کی ملاقات مشہور صحافی اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی۔ سنہ 1970 میں دونوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا نے ان کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی اور وہ ان کے ساتھ خوش بھی رہے لیکن دونوں کے مزاجوں کے فرق نے دھیرے دھیرے اپنا رنگ دکھایا۔ یہ دو اناؤں کا ٹکراؤ تھا اور دونوں میں سے ایک بھی خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آخر تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں الگ ہو گئے۔
زاہدہ حنا سے علاحدگی جون کے لیے بڑا صدمہ تھی۔ عرصہ تک وہ نیم تاریک کمرے میں تنہا بیٹھے رہتے تھے۔ سگریٹ اور شراب کی کثرت نے ان کی صحت بہت خراب کر دی، ان کے دونوں پھیپھڑے بیکار ہو گئے۔ وہ خون تھوکتے رہے لیکن شراب نوشی سے باز نہیں آئے۔ 8 نومبر 2002ء کو کراچی میں ان کی موت ہو گئی۔ زاہدہ سے الگ ہونے کے بعد جون پاکستان چلے گئے تھے اور شاعری کے افق پر چھا سے گئے تھے۔ ان کا انداز بیان لوگ خوب پسند کرتے تھے اور مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت جون ایلیا کو مانا جانے لگا تھا۔ جون کے شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان، گویا اور رموز کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
جون کی مزار پر انہیں کا یہ شعر تحریر ہے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیا کے چند اشعار
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
شرم، دہشت، جھجھک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتی
آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتی