جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری و جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے بالخصوص اتر پردیش حکومت کی طرف سے مسجد میں با جماعت نماز میں پانچ افراد کی قید لگانے کو غیر منطقی فیصلہ قرار دیتے ہوئے اسے غلط اور غیر مناسب ٹھہرایا ہے۔
یہ بات انہوں نے آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کہی ہے۔
انہوں نے استدلال کیا ہے کہ 'سبھی مذاہب کے طریقہ ہائے عبادت الگ الگ ہوتے ہیں۔ جہاں تک مسجد کا معاملہ ہے تو مسجد میں نماز اجتماعی طور سے ادا کی جاتی ہے، یہ کوئی انفرادی عمل نہیں ہے اور نہ ہی مسجد میں دوبارہ جماعت قائم کی جاتی ہے۔'
ایسی صورت میں ایک جماعت میں پانچ لوگوں کی قید لگانا نہ صرف یہ کہ مشکل پیدا کرنے والا عمل ہے بلکہ حکومت کی طرف سے ان لاک- 2 کے تحت دیگر شعبۂ حیات میں دی گئی رعایتوں کے بھی منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'مساجد کے ذمہ داروں کا یہ احساس ہے کہ مسجد کو لے کر جوں کی توں حالت برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب شاپنگ مالز، بازار یہاں تک کہ سرکاری دفاتر اور ٹرانسپورٹ میں افراد کی کوئی قید نہیں ہے تو عبادت خانے میں اس طرح کی قید لگانے کا کیا جواز ہے؟'
انہوں نے کہا کہ 'مساجد میں ہر طرح کی طبی ہدایات کی پابندی کی جارہی ہے۔ سوشل ڈسٹنسنگ کی شرائط کا بھی لحاظ کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ نماز کے وقت ایک شخص پوری طرح سے پاک صاف ہوتا ہے اور اپنے ہاتھ، پیر کو بھی دھوتا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ایسے میں حکومت کے اس فیصلے کو جمعیۃ علماء ہند غلط اور غیر مناسب تصور کرتی ہے اور حکومت سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور مسجد میں سوشل ڈسٹنسنگ کی شرط کے ساتھ بلا تعین نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ حکومت کا یہ موجودہ فیصلہ بہر صورت نامنظور اور ناقابل عمل ہے۔'