ETV Bharat / state

Irfan Habib on Aligarh Jama Masjid: جامع مسجد علی گڑھ کی تعمیر کھنڈر قلعہ پر کی گئی، عرفان حبیب

author img

By

Published : May 18, 2022, 4:16 PM IST

پدم بھوشن ایمریٹس پروفیسر عرفان حبیب نے علی گڑھ کی تاریخی جامع مسجد کی تعمیر سے متعلق بتایا کہ اس وقت کے سب گورنر ثابت خان نے 1724 میں پرانے ٹوٹے ہوئے قعلہ کی زمین پر مسجد کی تعمیر کروائی جو چار سال میں مکمل ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہسٹری آف آرکیٹیکچر اس کی اپنی جگہ ہے۔ Historian Irfan Habeeb about Aligarh Jama Masjid

جامع مسجد علی گڑھ کی تعمیر کھنڈر قلعہ پر کی گئی: پروفیسرعرفان حبیب
جامع مسجد علی گڑھ کی تعمیر کھنڈر قلعہ پر کی گئی: پروفیسرعرفان حبیب

علیگڑھ: ملک کی کچھ مساجد کی ہی طرح ریاست اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ کے اوپر کورٹ علاقے میں واقع 290 سال پرانی تاریخی شاہی جامع مسجد کو بھی نشانہ بناکر علی گڑھ کے پرامن ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ علی گڑھ کی جامع مسجد اس وقت سے سرخیوں میں آگئی جب پنڈت کیشو دیو شرما نے علی گڑھ میونسپل کارپوریشن سے آر ٹی آئی کے ذریعے جامع مسجد کے مالکانہ حق جاننے کی اطلاع مانگی جس کے جواب کہا گیا علی گڑھ کی جامع مسجد عوامی جگہ پر بنی ہے جس کا سہارا لے کر اب ہندو وادی رہنما کی جانب سے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر مسجد کے خلاف متنازع بیانات جاری کر کے علی گڑھ کے پر امن ماحول کو مکدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ اطلاع گزشتہ برس جولائی ماہ میں آر ٹی آئی کے ذریعے مانگی تھی۔ ہندو وادی نیتاؤں کا کہنا ہے کہ علی گڑھ کی جامع مسجد غیر قانونی ہے کیونکہ اس کی تعمیر عوامی جگہ پر کی گئی تھی، دیگر غیر قانونی جگہوں کی طرح علی گڑھ کی جامع مسجد کو بھی ہٹایا جائے۔ Historian Irfan Habeeb about Aligarh Jama Masjid

جامع مسجد علی گڑھ کی تعمیر کھنڈر قلعہ پر کی گئی: پروفیسرعرفان حبیب

اس سے متعلق پدم بھوشن، مشہور و معروف پروفیسر ایمریٹس مورخ عرفان حبیب نے بتایا کہ جامع مسجد میں فارسی میں ایک کتبہ لگا ہوا ہے اور اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ثابت خان جو اس وقت یہاں کا فوجدار تھا جس کا مطلب سب گورنر تھا، اس وقت صوبہ آگرہ تھا اور صوبہ آگرہ حکومتوں میں بٹا ہوا تھا۔ کول علی گڑھ کا نام تھا تو اس وقت ثابت خان یہاں کا گورنر تھا۔ اس قطبہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں پر ایک پرانا ٹوٹا ہوا قلعہ تھا جس پر میں نے ایک مسجد کی تعمیر کرائی تھی جس کی تعمیر 1724 میں شروع ہوئی اور 1728 میں مکمل ہوگئی۔

پروفیسر عرفان حبیب نے مزید بتایا کہ ہسٹری آف آرکیٹیکچر میں علی گڑھ کی جامع مسجد کی اپنی جگہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مغل کے وقت کی تعمیرات کے مطابق اس مسجد میں جو مٹیریل لگا ہوا ہے وہ کم قیمت کا ہے لیکن پھر بھی اس کی اپنی جگہ ہے۔ جب بھی مغل آرکیٹیکچر کی تاریخ دیکھی جاتی ہے تو اس کا ذکر ہوتا ہے اور اس کی کئی جگہ تصاویر بھی چھپی ہیں۔ ظاہر ہے اس وقت اگر کوئی اتنی بڑی مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دے سکتا تھا تو وہ گورنر ہی دے سکتا دیتا۔ عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ کوئی بھی کسی بھی چیز کو نشانہ بنا سکتا ہے لیکن سچائی یہی ہے۔ اس کتبے میں لکھا ہوا ہے کہ موجودہ علی گڑھ کی جامع مسجد سے قبل وہاں پر ایک پرانا ٹوٹا ہوا قلعہ تھا جس پر اس وقت کے گورنر ثابت خان نے مسجد کی تعمیر کروائی۔

علیگڑھ: ملک کی کچھ مساجد کی ہی طرح ریاست اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ کے اوپر کورٹ علاقے میں واقع 290 سال پرانی تاریخی شاہی جامع مسجد کو بھی نشانہ بناکر علی گڑھ کے پرامن ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ علی گڑھ کی جامع مسجد اس وقت سے سرخیوں میں آگئی جب پنڈت کیشو دیو شرما نے علی گڑھ میونسپل کارپوریشن سے آر ٹی آئی کے ذریعے جامع مسجد کے مالکانہ حق جاننے کی اطلاع مانگی جس کے جواب کہا گیا علی گڑھ کی جامع مسجد عوامی جگہ پر بنی ہے جس کا سہارا لے کر اب ہندو وادی رہنما کی جانب سے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر مسجد کے خلاف متنازع بیانات جاری کر کے علی گڑھ کے پر امن ماحول کو مکدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ اطلاع گزشتہ برس جولائی ماہ میں آر ٹی آئی کے ذریعے مانگی تھی۔ ہندو وادی نیتاؤں کا کہنا ہے کہ علی گڑھ کی جامع مسجد غیر قانونی ہے کیونکہ اس کی تعمیر عوامی جگہ پر کی گئی تھی، دیگر غیر قانونی جگہوں کی طرح علی گڑھ کی جامع مسجد کو بھی ہٹایا جائے۔ Historian Irfan Habeeb about Aligarh Jama Masjid

جامع مسجد علی گڑھ کی تعمیر کھنڈر قلعہ پر کی گئی: پروفیسرعرفان حبیب

اس سے متعلق پدم بھوشن، مشہور و معروف پروفیسر ایمریٹس مورخ عرفان حبیب نے بتایا کہ جامع مسجد میں فارسی میں ایک کتبہ لگا ہوا ہے اور اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ثابت خان جو اس وقت یہاں کا فوجدار تھا جس کا مطلب سب گورنر تھا، اس وقت صوبہ آگرہ تھا اور صوبہ آگرہ حکومتوں میں بٹا ہوا تھا۔ کول علی گڑھ کا نام تھا تو اس وقت ثابت خان یہاں کا گورنر تھا۔ اس قطبہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں پر ایک پرانا ٹوٹا ہوا قلعہ تھا جس پر میں نے ایک مسجد کی تعمیر کرائی تھی جس کی تعمیر 1724 میں شروع ہوئی اور 1728 میں مکمل ہوگئی۔

پروفیسر عرفان حبیب نے مزید بتایا کہ ہسٹری آف آرکیٹیکچر میں علی گڑھ کی جامع مسجد کی اپنی جگہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مغل کے وقت کی تعمیرات کے مطابق اس مسجد میں جو مٹیریل لگا ہوا ہے وہ کم قیمت کا ہے لیکن پھر بھی اس کی اپنی جگہ ہے۔ جب بھی مغل آرکیٹیکچر کی تاریخ دیکھی جاتی ہے تو اس کا ذکر ہوتا ہے اور اس کی کئی جگہ تصاویر بھی چھپی ہیں۔ ظاہر ہے اس وقت اگر کوئی اتنی بڑی مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دے سکتا تھا تو وہ گورنر ہی دے سکتا دیتا۔ عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ کوئی بھی کسی بھی چیز کو نشانہ بنا سکتا ہے لیکن سچائی یہی ہے۔ اس کتبے میں لکھا ہوا ہے کہ موجودہ علی گڑھ کی جامع مسجد سے قبل وہاں پر ایک پرانا ٹوٹا ہوا قلعہ تھا جس پر اس وقت کے گورنر ثابت خان نے مسجد کی تعمیر کروائی۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.