الہ آباد ہائی کورٹ نے شادی کے لیے مذہب میں تبدیلی کرنے کے معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ صرف شادی کے لیے مذہب کی تبدیلی درست نہیں ہوسکتی ہے۔ اس تبصرے کے ساتھ عدالت نے بین مذہبی طور پر شادی کرنے والے جوڑے کی درخواست خارج کر دی۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کو متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے اور اپنے بیانات ریکارڈ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کنبہ کے افراد کو پرامن ازدواجی زندگی میں مداخلت نہ کرنے کی ہدایت دیں۔ تاہم ہائی کورٹ نے اس معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔
یہ حکم جسٹس ایم سی ترپاٹھی نے پریانشی عرف سمرین اور دیگر کی درخواست پر دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ درخواست گزاروں میں سے ایک مسلمان ہے اور دوسرا ہندو ہے۔ اس لڑکی نے 29 جون 2020 کو ہندو مذہب قبول کیا اور ایک ماہ بعد 31 جولائی کو اس کی شادی ہوگئی۔ عدالت نے کہا کہ یہ ریکارڈ سے واضح ہے کہ شادی بیاہ کے لیے مذہب تبدیلی کیا گیا تھا۔
عدالت نے نور جہاں بیگم کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا۔ اس میں عدالت نے کہا ہے کہ شادی کے لئے مذہب تبدیل کرنا درست نہیں ہے۔ اس معاملے میں ہندو لڑکی نے مذہب تبدیل کر کے مسلم لڑکے سے شادی کی تھی۔
سوال یہ تھا کہ کیا ہندو لڑکی مذہب تبدیل کر سکتی ہے اور مسلمان لڑکے سے شادی کر سکتی ہے اور کیا یہ شادی قانونی ہوگی؟ قرآن مجید اور احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اسلام کے بارے میں جانے اور عقیدے و اعتقاد کو سمجھے بغیر مذہب اسلام کو قبول کرنا قابل قبول نہیں ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے مسلم سے ہندو بن کر شادی کرنے والی درخواست گزار کو راحت دینے سے انکار کر دیا۔