لکھنؤ: راشٹریہ علماء کونسل نے پندرہواں یوم تأسیس منایا۔ اس موقعے پر کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی نے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”راشٹریہ علماء کونسل ملک میں تنہا ایسی سیاسی جماعت ہے۔ جو بنا کسی منصوبہ بندی کے تحریک کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹر کے بعد جس طرح خفیہ ایجنسیوں نے مسلمانوں اور خاص طور سے ہمارے خطہ کو نشانہ بنایا اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا۔ ان حالات میں کوئی بولنے کے لیے تیار نہیں تھا تو کونسل نے مظلوموں کی آس بننے کا فیصلہ کیا اور انصاف اور ظلم وزیادتی کے خلاف عوام کی مضبوط آواز بن کر ابھری، ہم سیاست میں حکومت کی لالچ کے لیے نہیں بلکہ ظلم اور ظالم کے خلاف جدو جہد اور حالات اور سسٹم میں بدلاؤ کے لیے آئے تھے اور پچھلے پندرہ سالوں میں ہم نے غریبوں، مظلوموں، مسلمانوں، دلتوں اور پچھڑوں اور دوسرے محروم طبقات کے حقوق کے لیے بغیر جھکے، بغیر رکے، بغیر تھکے جدو جہد کی ہے اور آج پورے ملک میں ہماری یہ جدوجہد اور ایمانداری ہی ہماری پہچان ہے، ملک کے خستہ حال نظام میں اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ملک کی سیاست میں تبدیلی لانا ہوگا اور کونسل نے اور گزشتہ 16 سالوں میں یہ ثابت کرکے دکھایا ہے کہ ملک میں آج بھی ایمانداری اور نظریات پر مبنی سیاست کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Hatred Politics نفرت کی سیاست کو روکنا ہر ہندوستانی کا فرض: عامر رشادی
مولانا رشادی نے کہا کہ ہمارے آباء و اجداد نے ملک کی آزادی میں اپنی جانوں کی قربانی اس لیے دی تھی کہ آزادی کے بعد ملک میں خودکار، آئین اور مساوات کا راج ہوگا، لیکن افسوس پچھلے 75 برس میں حکومت میں رہنے والی سبھی پارٹیاں مل کر بھی آج تک عام ہندوستانی کو پینے کا صاف پانی بھی نہ دیں سکیں اور جب ترقی کے کھوکھلے وعدوں کی پول کھلنے لگی تو ان پارٹیوں نے ہی ملک میں ذات برادری و مذہب کی سیاست کا زہر گھول دیا تاکہ حکومت میں بنی رہ سکیں، ایسے میں سماج کا وہ طبقہ جو کہ مظلوم، محروم اور مسلمان تھا، اسے ڈرا کر اپنے ووٹ کو بنائے رکھا۔ سب سے زیادہ ہراساں مسلمانوں کو کیا گیا، جنہیں نسل در نسل ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے نام نہاد فرقہ پرست پارٹیوں کا خوف دکھا کر اپنا غلام بنائے رکھا، اس ڈر کی سیاست کے ردعمل نے جہاں مسلمانوں کی لوک سبھا میں نمائندگی94 سے گھٹ کر آدھے ہاتھ 42 پہنچ گئی تو وہیں 2 سیٹ والوں کو آج 300 سیٹوں پر پہونچا دیا۔
سیکولرازم کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے آج ہندوستان کا مسلمان اپنے ہی ملک میں سیاسی و سماجی اچھوت بن گیا ہے۔ مسلمانوں کا ووٹ تو سبھی کو چاہیے۔ مگر کوئی بھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہتا۔ مسلمانوں کو حصہ داری اور بھاگیداری دینے کو بھاجپا کا ’این ڈی اے‘ اتحاد تو تیار ہے ہی نہیں پر حزب اختلاف کا مجموعی اتحاد ’انڈیا‘بھی تیار نہیں ہے۔ تو آخر بھاجپا کے ’مسلمان مکت انڈیا‘ اور کانگریس کے ’مسلمان مکت انڈیا‘ میں فرق ہی کیا ہے؟ ایک ’مسلمان کو ڈر‘ دکھا کر اپنی محبت کی دکان چلا رہے ہیں تو دوسرا ’مسلمانوں کا ڈر‘ دکھا کر اپنی نفرت کی دکان چلا رہا ہے اور مسلمان ان دونوں کے پیچ اپنے وجود، پہچان، پہناوے، پکوان اور احترام کو بچائے رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ کل تک مسلمانوں کو سڑک اور چوراہوں پر جو گالیاں دی جاتی تھیں وہ آج سب کا ساتھ سب کا وکاس کرنے والے دن ہاڑے پارلیمنٹ میں ہی گالیاں دے رہے ہیں اور بے شرمی سے قہقہے لگا رہے ہیں تو وہیں اپنے ایک نیتا کے لیے پارلیمنٹ کو ٹھپ کر دینے والے حزب اختلاف کے سو کالڈ سیکولر دل پورے مسلم سماج کی توہین پر خالص زبانی خرچ تک محدود رہ جاتے ہیں۔
مولانا نے بھاجپا کی مرکزی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ آج مودی سرکار میں مہنگائی، فساد، ظلم و نااصافی، بے روزگاری، کسانوں کی خود کشی، تیل، گیس کی قیمت، روپیے میں زوال، فرضی انکاؤنٹر، مآپ لنچنگ اپنے عروج پر ہے اور اس سے ملک کا ہر طبقہ پریشان ہے۔ پر ان مسائل سے چھٹکارہ پانے کے لیے ملک کے ہر طبقہ کو ساتھ آنا پڑے گا ورنہ مسلمانوں کو بکرا بنا کر ہندو مسلم، مندر مسجد اور شمشان قبرستان کی فرقہ پرست سیاست ہوتی رہے گی اور اس کا نقصان آگے چل کر پورے ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ ملک کا مسلمان بھی بھاجپا کو روکنا چاہتا ہے اب وہ اپنے وجود اور وقار کو ختم کر کے سیکولرازم کا قلی نہیں بنے گا، اب اسے حصہ داری چاہیے نہ کہ تابع داری۔
کونسل کے قومی ترجمان ایڈووکیٹ طلحہ رشادی نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ علماء کونسل صرف ایک پارٹی نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، جو آج ملک بھر میں مظلوموں کی آواز کی شکل میں جانی جانے لگی ہے اور یہی پچھلے دس سالوں میں ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے، انہوں نے کارکنوں میں جوش بھرتے ہوئے کہا کہ کونسل کارکنان 2024ء کے لوک سبھا انتخابات کے لیے تیار ہوجائیں اور تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوطی دینے میں لگ جائیں اور کونسل کی دس سالوں کی دستیابیاں و پالیسیاں عام عوام تک پہونچائیں۔ الائنس اور الیکشن لڑنے کا فیصلہ اعلیٰ کمان کرے گا۔ مگر ہم کارکنان کا کام پارٹی کے لیے جدوجہد ہے اور ہم جاری رکھیں گے۔ یہ جدوجہد ہمارے وجود، ہمارے حقوق اور ہمارے مستقبل کی ہے اور اس لڑائی کو ہم نوجوانوں کو ہی مل کر اپنے دم پر لڑنا ہوگا۔
کونسل کے قومی نائب مولانا مقتدیٰ حسین مصباحی نے بڑی تعداد میں شرکت پر کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کونسل ملک کے اندر نئی صبح و نئی شام چاہتی ہے اور ایک ایسا نظام چاہتی ہے جس میں سب کو انصاف ملے اور آزاد فضا میں برابری کے احساس کے ساتھ سانس لے سکیں۔ کونسل اب ملک کے نوجوانوں کی آواز بن رہی ہے اور اسے اب کوئی روک نہیں سکتا۔ کونسل کے اتر پردیش صدر ٹھاکر انیل سنگھ اپنے خطاب میں کہا کہ علماء کونسل نے پہلے دن ہی یہ نعرہ دیا تھا کہ”ایکتا کا راج چلے مسلم ہندو ساتھ چلے گا“ اور اس نعرہ کو ہم نے زمین پر اتار کر دکھایا ہے، ملک میں پھیلے نفرت کے ماحول میں کونسل محبت کا چراغ جلا رہی ہے اور ملک کے اتحاد، سالمیت اور آزادی کو مضبوط کر رہی ہے، آج سماج کا ہر فرد کونسل کے ساتھ تیزی سے جڑ رہا ہے اور اپنے حق اور وجود کی لڑائی کونسل کے پلیٹ فارم سے لڑ رہے ہیں۔
کانفرنس کو کونسل کے نائب صدر مولانا اعجاز ندوی، مولانا مفتی غفران قاسمی، صوبائی صدر یوتھ ونگ نور الہدیٰ اور آسام صوبائی صدر مولانا عبیدالرحمٰن قاسمی، راجستھان کے صوبائی صدر سید یونس علی، دلی کے صوبائی صدر ایس ایم نور اللہ، بہار صدر فردوس احمد، شہاب الدین، شہاب عالم، مولانا مطیع الدین و ملک بھر کے مختلف صوبوں سے آئے کونسل کے صوبائی صدور، وفود نے بھی خطاب کیا، اس موقع پر کونسل کے پچھلے 15 سالوں کی دستیابیوں، کاموں سے متعلق کتابچہ کا بھی اجرا کیا گیا۔ ساتھ ہی مختلف پارٹیوں کو چھوڑ کر آئے سینکڑوں لوگوں نے کانفرنس میں کونسل کی رکنیت بھی اختیار کی۔