جونپور: ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور اپنی علمی و ادبی اور تاریخی لحاظ سے علیٰحدہ شناخت رکھتا ہے۔ یہاں پر پیدا ہوئے علما، صوفیا اور ادیبوں و شاعروں نے جونپور کو شیراز ہند دارالعلم، دارالسرور، دہلی ثانی جیسے خطابوں سے بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا۔ ایک دور تھا کہ جب جونپور کو مرکزیت کا درجہ حاصل تھا اور لوگ اپنی علمی تشنگی کو بجھانے کے لیے شیراز ہند کا رخ کیا کرتے تھے۔ جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے سینکڑوں علما و صوفیا کی پالکیاں ایک ساتھ اٹھا کرتی تھیں۔ زمانہ حال میں بھی چند ایسے ادبا و شعرا ہیں جو جونپور کی قدیمی وراثت و روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں میں سے ایک نام استاد شاعر عبرت مچھلی شہری کا ہے جو جونپور کے تاریخی و ادبی قصبہ مچھلی شہر کے رہنے والے ہیں۔ مچھلی شہر جونپور سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔ نمائندہ ای ٹی وی بھارت نے شاعر عبرت مچھلی شہری سے خصوصی بات چیت کی۔ عبرت مچھلی شہری نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شعر و شاعری سے دلچسپی بچپن سے ہی تھی۔ 11 سال کی عمر سے ہی شاعری شروع کر دیا کیونکہ والد اور بڑے بھائی شاعری کرتے تھے، ان کی صحبت نے شعر و شاعری سے رغبت پیدا کردی۔ انہوں نے بتایا کہ مچھلی شہر ہر اعتبار سے تاریخ کا حامل ہے۔ یہاں پر شہیر مچھلی شہری، سروش مچھلی شہری وغیرہ جیسے شعراء پیدا ہوئے جنہوں نے ایک الگ شناخت قائم کی۔ یہ وقت تھا کہ مچھلی شہر میں بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے جس میں اس وقت کے بڑے بڑے شعرا شرکت کرتے تھے۔
شاعر عبرت مچھلی شہری نے بتایا کہ احمد آباد، گجرات،ممبئی، مالیگاؤں سمیت ملک کے الگ الگ علاقوں میں مشاعروں مٰیں شرکت ہوتی رہی ہے۔ان کے تین شعری مجموعے ابتک منظر عام پر آچکے ہیں ایک شعری مجموعہ پر بہار اردو اکیڈمی نے انعام سے نوازا ہے اس کے علاوہ ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد تنظیموں نے انعام و اعزاز سے نوازا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت جونپور میں کئی شعراء ہیں جو بہترین شاعری کر رہے ہیں مگر وہ فن شاعری کے قواعد و ضوابط سے ناواقف ہیں استاد انہیں کہا جاتا ہے جو فن شاعری میں صلاحیت رکھتا ہو اور استاد انہیں فارغ الاصلاح کردیتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شاعر کو انسانیت نواز ہونا چاہیے اس کا کام ہوتا ہے پیغام محبت کو عام کرنا شاعروں کا سیاست سے کیا تعلق جبکہ ترقی پسند شعراء ایک مقصد کے تحت شاعری کرتے تھے اور 1950 کے بعد جدیدیت کی طرف مائل ہوئے تو شاعری میں سیاست آگئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی شاعر کو حق بولنے سے خوف ہے تو اسے شاعری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ شاعری اظہار خیال کا بہترین ذریعہ ہے اگر شاعری حق نہیں بولے گی تو دنیا میں کون سچ کہے گا باطل کے خلاف۔
یہ بھی پڑھیں : ایک شاعر سریز: اسیم مچھلی شہری سے گفتگو
شاعر عبرت مچھلی شہری نے اردو زبان کے حوالے سے کہا کہ دوسروں پر الزام رکھنے سے پہلے خود گریبان میں جھانکیں کی اس کے شریک جرم ہم خود بھی ہیں اردو کو اردو والوں سے نقصان پہنچ رہا ہے سب نے اردو کا خون چوسا ہے اور سب نے اردو کو غرض و مطلب کے لیے استعمال کیا ہے اور ہم اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے اردو کو لیکر ہم احساس کمتری کا شکار ہو گئے ہیں اردو زندہ رہے گی اردو بولنے والے بھی رہے گی مگر ہماری نسل اردو لکھتے نہیں ہیں اور صحافت اردو زبان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اردو کے فروغ و چلن کے لیے میں ہر طرح سے تیار ہوں۔