علیگڑھ: سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبۂ تاریخ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیر اہتمام ’ہندوستانی آثار قدیمہ کے حالیہ رجحانات‘ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں پروفیسر حبیب نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے آثار قدیمہ کے ارتقاء اور اس کی اہم دستیابیوں کا ذکر کیا اور آثار قدیمہ کے طلباء کے لیے دیانتداری اور ایمانداری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان اقدار کی آثار قدیمہ کے مطالعہ میں بنیادی اہمیت ہے۔ پروفیسر اسمر بیگ، ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنس، اے ایم یو نے تعلیمی و تحقیقی اداروں میں سیاست کے اثر و نفوذ کا ذکر کیا اور آثار قدیمہ کے مطالعہ کے میدان میں دیانتداری کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کتابی باتوں اور عمل میں ہم آہنگی و یکسانیت کی وکالت کی۔
یہ بھی پڑھیں:
پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے آثار قدیمہ کی تحقیق کے لیے منطقی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عقل و منطق کو ہی آثار قدیمہ کے مطالعہ کرنے کی بنیاد ہونا چاہیے۔ دہلی یونیورسٹی میں سوشل سائنس فیکلٹی کی ڈین اور شعبۂ تاریخ کی چیئرپرسن پروفیسر سیما باوا نے ”مادّی اجزاء: جمنا وادی سے ٹیراکوٹا اشیاء کی برآمدگی“ موضوع پر اپنے پرزنٹیشن میں تاریخ کے ابتدائی دورمیں ہندوستان کے مختلف خطّوں سے برآمد ٹیراکوٹا کے نمونوں اور علامات کا تجزیہ کیا اور مختلف کیس اسٹڈیز کے حوالے سے گفتگو کی۔ پروفیسر سیما باوا کی تحقیق نے اسٹائل، مادیت اور ثقافتی تناظر کے لحاظ سے ان نمونوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے ہندوستان کے ثقافتی تبادلے اور فنکارانہ پیداوار کی بھرپور تاریخ کا احاطہ کیا۔
ڈاکٹر سوپنا لِڈّل، ایڈوائزر، انٹیک، دہلی نے ’شاہجہان آباد - ایک زندہ مقام کے آثار قدیمہ کی نقشہ سازی‘ موضوع پر لیکچر دیا۔ انھوں نے شاہجہان آباد (جدید دہلی) کو کیس اسٹڈی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے آثار قدیمہ کے ایسے مقامات کی دیکھ ریکھ و تحفظ کے چیلنجوں کا ذکر کیا،جو اب بھی آباد ہیں۔ انہوں نے اس طرح کے تاریخی و ثقافتی مقامات کے تحفظ کی بہتر حکمت عملی کی ضرورت بیان کی۔
پروفیسر گلفشاں خان، چیئرپرسن و کوآرڈنیٹر، سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبۂ تاریخ، اے ایم یو نے حاضرین کا خیر مقدم کیا اور اے ایم یو میں آثار قدیمہ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی، جس کا سرا یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں سے ملتا ہے۔ انھوں نے سرسید کی گراں قدر تصنیف ’آثار الصنادید‘ کا ذکر کیا اور آثار قدیمہ کے مطالعہ اور تحقیق کے میدان میں پروفیسر نورالحسن اور پروفیسر آر سی گوڑ کی خدمات کا بھی اعتراف کیا۔
بعد ازاں، اپنے اختتامی کلمات میں پروفیسر گلفشاں خان نے سیمینار کی کامیابی میں تعاون کرنے والے تمام مندوبین، رفقاء، طلباء اور عملہ کے اراکین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اس سیمینار نے ہندوستانی آثار قدیمہ کے حالیہ رجحانات اور چیلنجوں کی نشاندہی کی، جو ہندوستان کی بھرپور تاریخ اور ثقافتی تنوع کے عکاس ہیں۔ آئی سی ایچ آر کے مالی اعانت سے منعقدہ اس سیمینار میں معروف اسکالرز اور محققین شریک ہوئے جو ہندوستان میں علمی تبادلۂ خیال اور آثار قدیمہ کی تحقیق کے فروغ میں مددگار ہوگا۔