بہار سمیت دیگر ریاستوں میں ائمہ اور مؤذنین حضرات کو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے لیکن اتر پردیش میں اس پر حکومت بھی خاموش ہے اور وقف بورڈ نے فنڈ نہ ہونے کا رونا رو کر اس مسئلے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔
ال امام ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر عمران صدیقی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ امام کی ذمہ داری صرف نماز پڑھانے کی نہیں ہے بلکہ اطراف کے لوگوں کو دین سمجھانے کی بھی ہے تاکہ وہ بہتر انسان بن سکیں۔
اتر پردیش سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں ہر فرقے کے لوگ ہیں باوجود اس کے امام مسجد کو بہت کم تنخواہ پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔
![In Uttar Pradesh, the demand for salaries for imams is similar to that of other states](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-luc-03-imamkitankgwah-1to1-7204798_03032021212702_0303f_1614787022_224.jpg)
پہلے زمانے میں ائمہ و مؤذنین مال غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا جس سے ان کی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں، لیکن موجودہ وقت میں ائمہ حضرات مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ انہیں نہ وقت پر کھانا ملتا ہے اور نہ ہی زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔ گاؤں دیہات میں ابھی بھی دو سے تین ہزار روپے ماہانہ دیا جاتا ہے اور کم و بیش یہی حالات شہروں کے بھی ہیں۔
عمران صدیقی نے تجویز پیش کرتے ہوئے بتایا کہ شہروں کی مساجد میں دکانیں بھی ہوتی ہیں لہذا اس میں سے ایک دکان امام کو دینا چاہیے تاکہ وہ اس میں کوئی کام کر سکیں اور اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کر سکیں۔
![In Uttar Pradesh, the demand for salaries for imams is similar to that of other states](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-luc-03-imamkitankgwah-1to1-7204798_03032021212702_0303f_1614787022_536.jpg)
انہوں نے کہا کہ امام اور عوام کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تبھی ہماری قوم ترقی کر سکتی ہے۔ دین مسجد سے ہی پھیلا ہے۔ "مسجد ہماری پرائمری تعلیم گاہ ہے جب کہ مدرسہ ہائر ایجوکیشن ہوا کرتے تھے لیکن آج حالات بدل چکے ہیں۔ آج قوم کا سارا پیسہ مدارس میں بطور چندہ جاتا اور مساجد بچوں سے ویران ہو چکی ہیں۔ کبھی یہی مساجد دین کا مرکز ہوا کرتی تھیں اور محلے کے بچے امام سے عربی و اردو زبان سیکھنے کے بعد مدرسہ میں داخلہ لیتے تھے۔
ال امام ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ہم نے وقف بورڈ کے چیئرمین سے بات کی، جس میں تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے سبھی مساجد کو وقف بورڈ سے رجسٹرڈ کروایا جائے اور امام مسجد کو کم از کم 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جائے۔ انہوں نے تجویز پسند کی لیکن فنڈ نہ ہونے کی بات کہہ کر معاملے کو حکومت تک پہنچانے کا کہہ دیا۔
عمران صدیقی نے کہا کہ "ہمیں موجودہ حکومت سے کوئی امید نہیں ہے۔ اس سے پہلے اکھیلیش یادو جب وزیر اعلی تھے، ہم نے ان سے بھی مطالبہ کیا تھا لیکن انہوں نے بھی نظر انداز کردیا جبکہ انہیں مسلمانوں کا لیڈر کہا جاتا ہے۔" ہم وقف بورڈ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سبھی مساجد کو اندراج کرے تاکہ مستقبل میں کوئی جھگڑا فساد نہ ہو۔ اس کے علاوہ وقف کی زمین کو اس طرح استعمال کرے تاکہ آمدنی کا ذریعہ بنے اور اسی سے مسجد امام کو تنخواہ ادا کی جائے، ساتھ ہی ان کا 'ہیلتھ کارڈ' بھی بنے۔
عمران حسن صدیقی نے کہا کہ وقف بورڈ کے جو لوگ ناجائز قابض ہیں، ان پر کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کا سیدھا فائدہ مسجد کے امام کو ہوگا۔ امام حضرات کو بہتر تنخواں ملے گی، تو وہ بہتر کام کر سکیں گے اور قوم و ملت کی اصلاح بھی کر سکیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں دہلی، بنگال، تلنگانہ، بہار میں ائمہ حضرات کو تنخواہ دی جا رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 1992 میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ وقف بورڈ اماموں کے لیے تنخواہ مقرر کر سکتی ہے لیکن اتر پردیش میں ابھی تک شیعہ و سنی وقف بورڈ نے اس جانب کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔