اترپردیش کے ضلع مظفرنگر میں پانچ مسلم خاندانوں کے پندرہ افراد کا ہندو مذہب اختیار کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان سبھی خاندانوں نے 18 سال قبل ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام مذہب اختیار کیا تھا۔
اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے آشرم کے سوامی یش ویر مہاراج سے بات کی تو انہوں نے الزام لگایا کہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کے دور حکومت میں کچھ لوگوں نے مظفر نگر، شاملی، باغپت اور رامپور سمیت مختلف اضلاع کے کچھ غریب غیر مسلم لوگوں کو مسلمان بنایا تھا جنہوں نے آج پھر سے ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے۔
مزید پڑھیں:
سوامی یش ویر مہاراج نے بتایا کہ ان سبھی لوگوں کو مظفرنگر کے بگھرا میں واقع یشویر مہاراج یوگا آشرم میں ہندو رسم و رواج کے مطابق ہندو مذہب میں واپسی کرائی گئی ہے۔
وہیں مذہب تبدیل کرنے والوں نے بتایا کہ انہوں نے غربت سے پریشان ہوکر اپنا مذہب تبدیل کیا تھا لیکن جب وہاں بھی غریبی نے ساتھ نہیں چھوڑا تو ہم نے دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں ریاست اترپردیش میں تبدیل مذہب کے الزام میں کئی گرفتاریاں ہوئیں جن مولانا کلیم صدیقی، عمر گوتم اور ان کے بیٹے عبداللہ نام سرفہرست ہیں۔ پولیس اور اے ٹی ایس نے ان پر جبراً تبدیل مذہب اور بیرونی ممالک سے فنڈنگ کے الزامات عائد کئے ہیں۔
یوپی اے ٹی ایس نے اب تک 17 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں مولانا عمر گوتم، عمر گوتم کے بیٹے عبداللہ، مولانا کلیم صدیقی، رامیشورم کاواڑے عرف آدم عرف ایڈم، بھوپریہ بندو عرف ارسلان مصطفیٰ، کوثر عالم، حافظ ادریس کا نام شامل ہے۔
وہیں مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'تبدیلی مذہب کے الزام میں مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کو جس طرح سے میڈیا پیش کررہا ہے، وہ قابل مذمت اور باعث تسویش ہے'
کلیم صدیقی پر غیر قانونی طریقہ سے مذہب تبدیل کرانے اور بیرونی ممالک سے فنڈنگ حاصل کرنے جیسے مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ یہ سارے الزامات سراسر بے بنیاد اورغلط ہیں، کیونکہ کسی غیر مسلم کو جبرا مسلمان نہیں بنایا جاسکتا۔ عقیدہ جاننے کا نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے مذہب کا پرچار کرنا کوئی جرم نہیں ہے اور اپنے مذہب کے بارے میں جانکاری دینا کسی بھی طرح کا جرم نہیں ہے۔
معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نقوی نے کہا کہ اے ٹی ایس کا ہر کام صحیح نہیں ہوتا۔ بہت ساری بدعنوانی بھی کرتے ہیں اور بے گناہوں کو بھی گرفتار کرتے ہیں، کیونکہ بڑی تعداد میں مسلمان کئی سالوں تک جیل میں رہنے کے باوجود با عزت بری ہوئے ہیں۔ لہذا پورے معاملے کی تہہ تک تفتیش کرنے کے بعد ہی کارروائی کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے، ان لوگوں سے پوچھ گچھ کی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ صرف اسلام قبول کرنے یا مسلمان ہو جانے کی بنیاد پر گرفتاری کرنا ملک کے آئین کے خلاف ہے۔ بھارتی آئین میں سبھی کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی آزادی ہے۔