ETV Bharat / state

'ائمہ و مؤذنین کے ذرائعِ آمدنی کو بڑھانے کی ضرورت'

موجودہ وقت میں زیادہ تر مقامات پر ائمہ مؤذنین کی تنخواہ بہ مشکل پانچ سے چھ ہزار روپیے فی ماہ ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے درمیان یہ موضوع اکثر و بیشتر موضوع بحث رہتی ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہیں۔

imams and muezzins salaries must increase
ائمہ و مؤذنین کے وظیفے بھی خاطر خواہ ہونا چاہیے
author img

By

Published : Jan 30, 2021, 9:51 PM IST

Updated : Jan 30, 2021, 10:07 PM IST

ہماری پوری کوشش رہتی ہے کہ مساجد محفوظ رہیں اور عالی شان بنے، لیکن ایک اہم پہلو کی جانب ہماری نگاہیں نہیں اٹھ رہی ہیں۔ ہماری مساجد کے امام جن کے پیچھے ہم نماز ادا کرتے ہیں ان کے حالات کو جاننا بھی ہماری اخلاقی مذہبی اور سماجی ذمہ داری ہے۔

دیکھیں ویڈیو

ائمہ مؤذنین کی تنخواہ بہ مشکل پانچ سے چھ ہزار روپیے فی ماہ ہوتی ہے جو آج کے مہنگائی کے دور میں بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ائمہ و مؤذنین اپنی بنیادی ضرورتوں کو کیسے پر کرتے ہونگے۔

یہی وجہ ہے مسلم والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے جدید اور دنیاوی تعلیم حاصل کر کے بینک میں ملازم، مینیجر کی کرسی یا ایک کامیاب کاروباری بنے لیکن شاید ہی کچھ لوگ چاہتے ہونگے کہ ان کے بچے بینک کی ملازمت یا مینیجر کی کرسی پر نہ بیٹھ کر مسجد کے مصلے پر آجائیں۔

مدرسہ العلوم علی گڑھ کے پرنسپل ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نےخصوصی گفتگو میں بتایا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ائمہ و مؤذنین کی تنخواہ مختصر ہوتی ہے۔ جبکہ آج کے وقت میں ایک مزدور 8 گھنٹے کی نوکری کرتا ہے اور جس کی آمدنی دس ہزار روپے ہوتی ہے لیکن 24 گھنٹے اپنی خدمات انجام دینے کے باوجود بھی آج ملک میں امام کی تنخواہ بمشکل پانچ سے چھ ہزار یا بہت زیادہ ہوئی تو 10 ہزار روپیہ ہے جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچا اور بنیادی ضرورتوں کو کیسے پر کرتا ہوگا۔

ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نے مزید کہا کہ جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ مساجد میں ایک یا دودکان امام کو دے دینی چاہیے تاکہ تنخواہ کے ساتھ وہ ان دکانوں میں کاروبار کر کے آمدنی حاصل کر سکے اور اپنی بنیادی ضرورتوں کو با آسانی پر کر سکیں۔

زیادہ ترعلاقوں کے گھروں کی اوسط آمدنی پچاس ساٹھ ہزار یا ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے اور اسی علاقے کی مسجد کے امام کی تنخواہ پانچ یا چھ ہزار ہوتی ہے تو اگر ہر ایک گھر سے آمدنی کے مطابق مساجد کے لئے سو، دو سو یا پانچ سو روپے فی ماہ مساجد کو دیئے جائے جس سے امام اور مؤذنین کی تنخواہ میں اضافہ ہو جائے۔

مزید پڑھیں:

'اویسی شرعی مسئلہ فقہاء ومفتیان پر ہی چھوڑ دیں'

حافظ محمد صابر نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ امام اور مؤذنین کے رہنے کی جگہ مساجد میں ہو اور ہمیں ایسی تدابیر کرنی چاہیے جس سے ان کی ضرورت پوری ہوتی رہیں اور ان کو کسی چیز کی پریشانی نہ ہو۔ یہ ضروری ہے کہ امام کی تنخواہ میں اضافہ ہو۔ آج کے مہنگائی کے دور میں محض پانچ، چھہ ہزار روپئے میں امام اپنی بنیادی ضرورتوں کو اور اپنے گھر کو کیسے چلاتے ہوں گے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ہماری پوری کوشش رہتی ہے کہ مساجد محفوظ رہیں اور عالی شان بنے، لیکن ایک اہم پہلو کی جانب ہماری نگاہیں نہیں اٹھ رہی ہیں۔ ہماری مساجد کے امام جن کے پیچھے ہم نماز ادا کرتے ہیں ان کے حالات کو جاننا بھی ہماری اخلاقی مذہبی اور سماجی ذمہ داری ہے۔

دیکھیں ویڈیو

ائمہ مؤذنین کی تنخواہ بہ مشکل پانچ سے چھ ہزار روپیے فی ماہ ہوتی ہے جو آج کے مہنگائی کے دور میں بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ائمہ و مؤذنین اپنی بنیادی ضرورتوں کو کیسے پر کرتے ہونگے۔

یہی وجہ ہے مسلم والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے جدید اور دنیاوی تعلیم حاصل کر کے بینک میں ملازم، مینیجر کی کرسی یا ایک کامیاب کاروباری بنے لیکن شاید ہی کچھ لوگ چاہتے ہونگے کہ ان کے بچے بینک کی ملازمت یا مینیجر کی کرسی پر نہ بیٹھ کر مسجد کے مصلے پر آجائیں۔

مدرسہ العلوم علی گڑھ کے پرنسپل ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نےخصوصی گفتگو میں بتایا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ائمہ و مؤذنین کی تنخواہ مختصر ہوتی ہے۔ جبکہ آج کے وقت میں ایک مزدور 8 گھنٹے کی نوکری کرتا ہے اور جس کی آمدنی دس ہزار روپے ہوتی ہے لیکن 24 گھنٹے اپنی خدمات انجام دینے کے باوجود بھی آج ملک میں امام کی تنخواہ بمشکل پانچ سے چھ ہزار یا بہت زیادہ ہوئی تو 10 ہزار روپیہ ہے جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچا اور بنیادی ضرورتوں کو کیسے پر کرتا ہوگا۔

ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نے مزید کہا کہ جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ مساجد میں ایک یا دودکان امام کو دے دینی چاہیے تاکہ تنخواہ کے ساتھ وہ ان دکانوں میں کاروبار کر کے آمدنی حاصل کر سکے اور اپنی بنیادی ضرورتوں کو با آسانی پر کر سکیں۔

زیادہ ترعلاقوں کے گھروں کی اوسط آمدنی پچاس ساٹھ ہزار یا ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے اور اسی علاقے کی مسجد کے امام کی تنخواہ پانچ یا چھ ہزار ہوتی ہے تو اگر ہر ایک گھر سے آمدنی کے مطابق مساجد کے لئے سو، دو سو یا پانچ سو روپے فی ماہ مساجد کو دیئے جائے جس سے امام اور مؤذنین کی تنخواہ میں اضافہ ہو جائے۔

مزید پڑھیں:

'اویسی شرعی مسئلہ فقہاء ومفتیان پر ہی چھوڑ دیں'

حافظ محمد صابر نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ امام اور مؤذنین کے رہنے کی جگہ مساجد میں ہو اور ہمیں ایسی تدابیر کرنی چاہیے جس سے ان کی ضرورت پوری ہوتی رہیں اور ان کو کسی چیز کی پریشانی نہ ہو۔ یہ ضروری ہے کہ امام کی تنخواہ میں اضافہ ہو۔ آج کے مہنگائی کے دور میں محض پانچ، چھہ ہزار روپئے میں امام اپنی بنیادی ضرورتوں کو اور اپنے گھر کو کیسے چلاتے ہوں گے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

Last Updated : Jan 30, 2021, 10:07 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.