جونپور میں ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بیان دیا تھا کہ 'ہم لو جہاد کے خلاف سخت قانون سازی کریں گے تاکہ کوئی ایسا نہ کر سکے۔ اگر پھر بھی ایسا کرتا ہے تو ہم اس کا 'رام نام ستیہ' کر دیں گے۔'
اس ضمن میں ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سابق رکن پارلیمان و نیشنل جسٹس پارٹی کے قومی صدر الیاس اعظمی نے کہا کہ 'یہ صرف ہندوؤں کا ووٹ حاصل کرنے کی ایک چال ہے، اس سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک بے وقوفی اور احمقوں کا فیصلہ ہے۔ بیوروکیٹس لیڈران کے غلام ہوتے ہیں، وہ انہیں کی سوچ کے مطابق ڈرافٹ تیار کر دیتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ اسمبلی سے پاس بھی ہو جائے گا لیکن قانون نہیں بنے گا کیونکہ پہلے بی جے پی کے بڑے لیڈران جن سے مسلمان خوف زدہ ہیں، وہ اپنی لڑکیوں کو پہلے روک لیں۔
الیاس اعظمی نے سرکار کی منشا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ 'لو جہاد' پر قانون بنانے کا صرف ایک ہی مقصد ہے 'ہندو بھائیوں کا ووٹ حاصل کرنا۔ یہ ایک ووٹ بڑھانے کی تکنیک ہے۔'
حالانکہ مسلمانوں کو یہ معاملہ مذہبی لگتا ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس سے پہلے ممتاز شاعر منور رانا نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ 'انہوں نے نہ لو کیا اور نہ ہی جہاد لہذا انہیں اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔'
محبت بے اختیاری چیز ہے، اس پر کسی کا زور نہیں ہوتا اور جہاد اپنے اوپر قابو پانے کا نام ہے لہذا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پر اجارہ تو نہیں
سمیہ رانا نے کہا کہ جب لو جہاد ایک ساتھ جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے، تب ایک خاص طبقے کو دوسرے طبقے کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ کیونکہ جہاد کا نام آتے ہی ذہنی سوچ بدل جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے کئی بڑے لیڈران کے داماد مسلمان ہیں لہذا سب سے پہلے ان لوگوں کی گھر واپسی ہونی چاہیے۔'
سمیہ رانا نے وزیر اعلیٰ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان ملک کے دستور کے خلاف ہے۔
دستور نے سب کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے لیکن موجودہ حکومت ملک کے آئین کو نظرانداز کر رہی ہے۔
ان کا بیان ملک کے خلاف، آئین کے خلاف، انسانیت کے خلاف اور محبت کے خلاف ہے۔
وہیں ٹی وی اداکارہ و کلاسیکی ڈانسر فرحانہ فاطمہ نے فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت و ملک کے آئین کے خلاف ہے کیونکہ بھارتی آئین نے ہر بالغ لڑکے و لڑکی کو اپنی پسند سے زندگی جینے کا حق دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے بعد سماج میں نفرت بڑھے گی جبکہ ہمارا مقصد پیار و محبت کا پیغام عام کرنا ہے۔
فرحانہ فاطمہ نے بتایا کہ سماج کے کچھ لوگ اس کا غلط استعمال کر کے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنا کر تشدد کر سکتے ہیں لہذا ایسا قانون بنانے کا فیصلہ صحیح نہیں ہے۔
اس سلسلے میں سماجی کارکن عمران صدیقی نے کہا کہ تمام تنظیمیں یہ دکھانا چاہتی ہیں کہ وہ مسلم مخالف ہیں اور سماج میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دو بالغ لوگ پیار محبت کر کے شادی کر سکتے ہیں کیونکہ آئین نے انہیں یہ حق دیا ہے۔
عمران صدیقی نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے بیان پر سخت رد عمل کرتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے ذمہ دار کو لو جہاد کے نام پر 'رام نام ستیہ' کرنے کا بیان نہیں دینا چاہئے۔
وزیر اعلیٰ کے بیان سے ان کی ذہنی سوچ کا علم ہوتا ہے۔ وہ کھلے عام قانون ہاتھ میں لینے کی بات کر رہے ہیں جبکہ مسلمانوں نے ہی مندر کے لئے زمین عطیہ کیا تھا۔
اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے لو جہاد پر سخت قانون بنانے کا اعلان کیا۔ اگر قانون بن گیا تو سماج کے شر پسندوں کو خاص طبقے کے خلاف تشدد کرنے کا موقع ملے گا۔ ساتھ ہی پولیس قانون کا غلط استعمال کرکے بےگناہ نوجوانوں کو پریشان کرے گی۔