ETV Bharat / state

Sherwani in AMU سر سید کے زمانے میں شیروانی نہیں ترکی کوٹ اور ٹوپی تھا ڈریس کوڈ: ڈاکٹر راحت ابرار

اردو اکاڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرارنے بتایاکہ بانی درسگاہ سر سید احمد کے زمانے میں طلباء کا ڈریس کوڈ ترکی کوٹ اور ٹوپی تھا جو بعد میں ترکی کوٹ شیروانی میں تبدیل ہوا۔ترکی ٹوپی آج بھی شیروانی کے ساتھ بڑی ہی شان و شوکت سے پہنی جاتی ہے۔ sherwani in Aligarh Muslim University

author img

By

Published : Sep 20, 2022, 9:44 PM IST

Updated : Sep 21, 2022, 12:52 PM IST

سر سید کے زمانے میں شیروانی نہیں ترکی کوٹ اور ٹوپی تھا ڈریس کوڈ: ڈاکٹر راحت ابرار۔
سر سید کے زمانے میں شیروانی نہیں ترکی کوٹ اور ٹوپی تھا ڈریس کوڈ: ڈاکٹر راحت ابرار۔

ریاست اترپردیش کے علی گڑھ ضلع میں واقع عالمی شہرت یافتہ 'علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی روایتوں میں سے ایک روایت شیروانی ہے جو آج بھی زندہ ہے۔ یونیورسٹی کے طلبا کی داخلے فیس میں شامل ہوتی ہے شیروانی کی رقم۔History and importamce of sherwani in Aligarh Muslim University

شیروانی یوں تو صدیوں پرانا لباس ہے لیکن علیگڑھ میں اے ایم یو کے زیر سایہ شیروانی کو بہت عزت و احترام ملا۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شیروانی نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ دوسرے کسی لباس کو نہیں ملا۔

سر سید کے زمانے میں شیروانی نہیں ترکی کوٹ اور ٹوپی تھا ڈریس کوڈ: ڈاکٹر راحت ابرار
یونیورسٹی کے سابق طالب علم، سابق ڈائریکٹر اردو اکاڈمی ڈاکٹر راحت ابرار نے یونیورسٹی میں شیروانی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جب سر سید نے 1875 میں مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی جو بعد میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج بنا۔اس وقت طلباء کا ڈریس کوڈ ترکی کوٹ اور ٹوپی تھا کیونکہ سر سید ترکی لباس سے بہت مطاثر تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی وائس چانسلر شپ کے دوران شیروانی طلبہ کا ڈریس کوڈ بنا۔اس کے ساتھ آج بھی ترکی ٹوپی بڑی ہی شان و شوکت اعزت و احترام سے پہنی جاتی ہے ۔ یونیورسٹی کی روایات کا حصہ ہے۔شیروانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کی روح کی طرح ہے، یونیورسٹی میں جب بھی کوئی تقریب یا المنائی پوری دنیا میں کراتے ہیں تو اس میں آپ دیکھیں گے کہ بہت سارے لوگ شیروانی میں دیکھائی دیتے ہیں۔ طلباء کے لئے شیروانی کا رنگ کالا ہے۔تدریسی عملہ مختلف رنگوں کی شیروانی پہنتے ہیں۔ شیروانی کو اے ایم یو میں کافی مقبولیت حاصل ہے۔بہت شوق سے طلباء شیروانی پہنتے ہیں جبکہ یوم سرسید کو کافی اہتمام سے پہنی جاتی ہے۔روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یونیورسٹی میں جتنے بھی نئے داخلے ہوتے ہیں۔ اس میں طلباء کی فیس میں 800 روپے شیروانی کے لئے بھی ہوتے ہیں۔ پراکٹر آفس سے ایک رسید ملتی ہے۔ اس کے بعد علیگڑھ کے مختلف ٹیلر (درزی) جو شیروانی کے ماہر ہیں طلباء وہاں سے شیروانی سلوا لیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:Stranger Poisons Bike Rider After Asking For Lift انجان مسافر نے لفٹ کے بہانے بائیک سوار کو زہریلا انجکشن لگایا


یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے بتایاکہ میرے پاس دس سے بارہ شیروانی موجود ہیں۔ ویسے تو یہ لباس صدیوں پرانا ہے لیکن جب میں 16 سال قبل اے ایم یو تعلیم حاصل کرنے آیا تھا تبھی سے شیروانی پہنا شروع کردی تھی۔آج بھی پہنتا ہوں۔ دنیا میں آپ کہیں بھی جائیں اور شیروانی پہنے ہوئے ہیں تو لوگ یہ پوچھتے ہیں کیا۔آپ علیگڑھ سے ہیں، اس کا مطلب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنی پرانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔History and importamce of sherwani in Aligarh Muslim University

ریاست اترپردیش کے علی گڑھ ضلع میں واقع عالمی شہرت یافتہ 'علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی روایتوں میں سے ایک روایت شیروانی ہے جو آج بھی زندہ ہے۔ یونیورسٹی کے طلبا کی داخلے فیس میں شامل ہوتی ہے شیروانی کی رقم۔History and importamce of sherwani in Aligarh Muslim University

شیروانی یوں تو صدیوں پرانا لباس ہے لیکن علیگڑھ میں اے ایم یو کے زیر سایہ شیروانی کو بہت عزت و احترام ملا۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شیروانی نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ دوسرے کسی لباس کو نہیں ملا۔

سر سید کے زمانے میں شیروانی نہیں ترکی کوٹ اور ٹوپی تھا ڈریس کوڈ: ڈاکٹر راحت ابرار
یونیورسٹی کے سابق طالب علم، سابق ڈائریکٹر اردو اکاڈمی ڈاکٹر راحت ابرار نے یونیورسٹی میں شیروانی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جب سر سید نے 1875 میں مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی جو بعد میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج بنا۔اس وقت طلباء کا ڈریس کوڈ ترکی کوٹ اور ٹوپی تھا کیونکہ سر سید ترکی لباس سے بہت مطاثر تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی وائس چانسلر شپ کے دوران شیروانی طلبہ کا ڈریس کوڈ بنا۔اس کے ساتھ آج بھی ترکی ٹوپی بڑی ہی شان و شوکت اعزت و احترام سے پہنی جاتی ہے ۔ یونیورسٹی کی روایات کا حصہ ہے۔شیروانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کی روح کی طرح ہے، یونیورسٹی میں جب بھی کوئی تقریب یا المنائی پوری دنیا میں کراتے ہیں تو اس میں آپ دیکھیں گے کہ بہت سارے لوگ شیروانی میں دیکھائی دیتے ہیں۔ طلباء کے لئے شیروانی کا رنگ کالا ہے۔تدریسی عملہ مختلف رنگوں کی شیروانی پہنتے ہیں۔ شیروانی کو اے ایم یو میں کافی مقبولیت حاصل ہے۔بہت شوق سے طلباء شیروانی پہنتے ہیں جبکہ یوم سرسید کو کافی اہتمام سے پہنی جاتی ہے۔روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یونیورسٹی میں جتنے بھی نئے داخلے ہوتے ہیں۔ اس میں طلباء کی فیس میں 800 روپے شیروانی کے لئے بھی ہوتے ہیں۔ پراکٹر آفس سے ایک رسید ملتی ہے۔ اس کے بعد علیگڑھ کے مختلف ٹیلر (درزی) جو شیروانی کے ماہر ہیں طلباء وہاں سے شیروانی سلوا لیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:Stranger Poisons Bike Rider After Asking For Lift انجان مسافر نے لفٹ کے بہانے بائیک سوار کو زہریلا انجکشن لگایا


یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے بتایاکہ میرے پاس دس سے بارہ شیروانی موجود ہیں۔ ویسے تو یہ لباس صدیوں پرانا ہے لیکن جب میں 16 سال قبل اے ایم یو تعلیم حاصل کرنے آیا تھا تبھی سے شیروانی پہنا شروع کردی تھی۔آج بھی پہنتا ہوں۔ دنیا میں آپ کہیں بھی جائیں اور شیروانی پہنے ہوئے ہیں تو لوگ یہ پوچھتے ہیں کیا۔آپ علیگڑھ سے ہیں، اس کا مطلب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنی پرانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔History and importamce of sherwani in Aligarh Muslim University

Last Updated : Sep 21, 2022, 12:52 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.