علی گڑھ:سرسید احمد خان کی جب غازی پور میں پوسٹنگ تھی تو انہوں نے سنہ 1864 میں سائنٹیفک سوسائٹی کا قیام کیا. اس کے لیے سرسید نے انگریزی حکام کی بھی مدد لی۔ سائنٹیفک سوسائٹی کا پہلا اجلاس غازی پور میں سرسید کی رہائش گاہ میں عمل میں آیا۔
بانی درسگاہ سر سید احمد خان نے 1864 میں ضلع علی گڑھ میں سائنسی سوسائٹی کے لیے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک عمارت تعمیر کروائی تھی۔اس نے اسی سال اپنا جریدہ 'علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ' کا آغاز کیا تھا جو آج بھی 'علیگڑھ مسلم یونیورسٹی گزٹ' سے شائع کیا جاتا ہے۔
سائنٹیفک سوسائٹی اور انسٹی ٹیوٹ کا مشترکہ ترجمان جریدہ 30 مارچ 1866 کو اس نعرے کے ساتھ ہفتہ وار گردش میں آیا کہ پریس کی آزادی کی اجازت دینا ایک عقلمند حکومت کا حصہ ہے۔ اسے محفوظ رکھنا آزاد لوگوں کا حصہ ہے۔ گزٹ کے مندرجات کا کچھ حصہ صرف اردو میں، کچھ حصہ انگریزی میں، اور ایک حصہ دونوں زبانوں میں بھی چھاپا گیا تھا۔ لیکن آج علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی تاریخی عمارت اپنی بدحالی کے سبب گمنامی پر آنسو بہا رہی ہیں۔
سر سید اکیدمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایاکہ 1864 میں جب سرسید کا غاز پور سے علی گڑھ تبادلہ ہوگیا تو نومبر 1864 کو اے ایم یو طبیہ کالج دواخانہ کیمپس میں ایک نئی عمارت کا قیام عمل میں آیا جو 14 فروری 1866 کو بن کر تیار ہوا۔ اس عمارت کا افتتاح میرٹھ کے کمشنر ویلیمس نے کیا۔ کچھ سال قبل دواخانہ طبیہ کالج دواخانہ منتقل ہوگیا جس کے بعد تاریخی اور اہمیت کی حامل سائنٹیفک سوسائٹی کی عمارت بدحال ہو گئ ہے اس کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہے اگر یہی حال رہا تو یہ عمارت زمین بوز ہو جائے گی۔
ابرار نے مزید کہا ہمیں اپنی تاریخ کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پوری علیگڑھ تحریک کا آغاز اسی عمارت سے ہوتا ہے اس لئے اس کی نشانیوں کو محفوظ کرنا چاہیے۔ اگر تاریخ کو ہمنے ضائع کر دیا تو یہ علیگڑھ پر ظلم ہوگا۔سرسید کی تحریک پر ظلم ہوگا اور مسلمانوں کی تاریخ پر ظلم ہوگا کیونکہ علیگڑھ کی تاریخ مسلمانوں کی تاریخ ہے۔ اس لئے اس تاریخی اور اہمیت کی حامل سائنٹیفک سوسائٹی کی عمارت کی بدحالی کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور آنکھوں میں آنسو آتے ہیں اس لئے میری یونیورسٹی انتظامیہ سے اپیل ہے کہ وہ اس کو محفوظ کریں۔
سائنٹیفک سوسائٹی کا اہم کام اور مقصد ترجمہ کا تھا جس کے بعد اس وقت کی اہم کتابیں کا ترجمہ اردو میں عمل میں آیا۔ سرسید احمد خان کا ماننا تھا کہ اگر تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو نوجوان جلدی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ادبیات اور اچھی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:AMU Doctor اے ایم یو کے ڈاکٹروں نے مشکل ٹیومر کی کامیاب سرجری کی
صد سالہ تقریبات کے موقع پر اس وقت سائنٹیفک سوسائٹی کا جو خاص پتھر تھا اس کو طبی کالج دواخانے سے سرسید اکادمی لایا گیا کیوں کہ سرسید ہاؤس میں زیادہ لوگ آتے ہیں۔ جس سے لوگوں کو سائنٹیفک سوسائٹی کے بارے کے بارے میں جانکاری ملے۔ اسی کام کے لیے سائنٹفک سوسائٹی کا ایک کمرہ بنایا گیا۔ وہ پتھر آج بھی کمرے کے باہر لگا ہوا ہے۔