انہیں عمارتوں میں حسین آباد علاقے میں موجود چھوٹا امام باڑہ عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ امام باڑہ کا سنگ بنیاد نواب محمد علی شاہ نے سنہ 1837 میں رکھی تھی۔
اس کا ڈیزائن 'انڈو فارسی' ہے، اسے 'کریملن آف انڈیا' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ایک قول کے مطابق اس میں نواب محمد علی شاہ کے مقبرہ کے علاوہ ان کی بیٹی اور داماد کا بھی مقبرہ بنا ہوا ہے۔
حسین آباد علاقے میں آباد ہونے کی وجہ سے اس امام بارگاہ کو حسین آباد امام بارگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس امام باڑہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی طرز تعمیر آگرہ کے 'تاج محل' سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔
امام بارگاہ کے سامنے حوض اور باغ کے علاوہ دونوں جانب مقبرہ اور ایک مسجد قائم ہے۔ امام بارگاہ کے اندر مہنگے تعزیے، چندن، ہاتھی دانت سے بنا تاج محل جیسی دیگر قیمتی اشیاء موجود ہیں۔
امام باڑے کو نوابوں کی آخری آرام گاہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں نوابوں اور ان کے خاندان کے متعدد افراد کی قبریں موجود ہیں۔
ماہ محرم میں اس امام باڑے کو خاص طور پر 'بیلجیئم' کی لائٹ سے آراستہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اسے 'پیلیس آف لائٹ' کہا جاتا ہے۔ حسین آباد امام بارگاہ کی سجاوٹ بلجیئم کے کانچ کی قیمتیں جھاڑ، فانوس، قندیلیں، دیوار گیری اور شمع دان سے کی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں:
رام مندر ٹرسٹ این او سیز حاصل کرنے میں مصروف
حسین آباد امام باڑہ تاج محل کی مانند نظر آتا ہے۔ اس کی دیواروں پر بھی قرآنی آیات کنُدہ ہیں۔ امام باڑہ کے ٹھیک سامنے نہر اور حوض ہے۔