ETV Bharat / state

Dilapidated Condition of The Fountain in AMU: اے ایم یو میں سرسید کے زمانے کا تاریخی فوارہ بدحالی کا شکار - سرسید احمد خان کے وقت کا قدیم فوارہ بد حالی کا شکار

عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی Aligarh Muslim University کا اہمیت کا حامل اور روشن تاریخ کی وراثت بانی درسگاہ سرسید احمد خان کے وقت کا قدیم فوارہ بد حالی کا شکار ہے اور اے ایم یو انتظامیہ کی توجہ کا طلب گارہے۔

اے ایم یو میں سرسید کے زمانے کا تاریخی فوارہ بدحالی کا شکار
اے ایم یو میں سرسید کے زمانے کا تاریخی فوارہ بدحالی کا شکار
author img

By

Published : Jan 11, 2022, 5:57 PM IST

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی Aligarh Muslim University ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے، جس میں سب سے زیادہ تاریخی عمارتیں Historic Buildings موجود ہیں۔ یہاں 1801 کی تعمیر شدہ 'پیرو ہاؤس' بھی موجود ہے۔ بانی درس گاہ سر سید احمد خان کے دور کی تعمیرات پر تاریخ کو پتھروں پر نصب اس لیے کروایا گیا تھا تاکہ نئی نسل تعمیرات کی تاریخ اور اہمیت کو جانے اور قیامت تک تاریخ محفوظ ہو سکے۔

اے ایم یو میں سرسید کے زمانے کا تاریخی فوارہ بدحالی کا شکار

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں موجود اہمیت کی حامل اور قدیم تعمیرات کچھ ایسی بھی ہیں جو بدحالی کا شکار ہیں جس پر نصب تاریخ کو یا تو رنگ سے ڈھک دیا گیا یا بدحالی کے سبب تاریخ غائب ہوتی جا رہی ہے، جس میں سرسید ہاؤس میں موجود پانی کے کویں WELL، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی تاریخی بونڈری، بیگم پور گیٹ، روشن تاریخ کی وراثت طلبہ یونین ہال کے سامنے موجود پانی کا فوارہ شامل ہے۔ تقریباً 157 سال قدیم پانی کے فوارے کی بدحالی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس کی تاریخ معلوم ہی نہیں یا بھول گیا۔ فوارہ پر نصب تاریخ کو بھی رنگ سے ڈھک دیا گیا ہے۔

اے ایم یو اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا اس قدیم اور اہمیت کے حامل فوارہ سے متعلق الگ الگ لوگوں نے لکھا ہے۔ مولوی افتخار عالم مہالیلوی لکھتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ سرسید احمد خان نے جو 1863 میں 'سائنٹیفک سوسائٹی' قائم کی جو بعد میں دواخانہ طبیہ کالج بنی وہاں پر ایک بہت عالی شان عمارت بنی تھی۔

اس عمارت کے بالکل سامنے ایک بے حد خوبصورت پانی کا فوارہ تھا جس کو اس وقت کے کلیکٹر لین نے اپنی بیٹی کے انتقال کے بعد اس کی یاد میں بنوایا تھا، جس کو سائنٹیفک سوسائٹی کے لیے سرسید احمد خان کو عطیہ کیا گیا تھا۔ اس عطیہ کو سرسید احمد خان نے قبول کیا اور خود اس کو وہاں لگوایا تھا۔

ڈاکٹر راحت ابرار نے کہا کہ تاریخی فوارہ کی بدحالی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس کی تاریخ معلوم ہی نہیں یا بھول گیا۔

انتظامیہ کی لاعلمی کے سبب ہی فوارے کے پتھر پر نصب تاریخ پر بھی رنگ کر دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے فوارہ پر نصب تاریخ کو رنگ سے اس لیے ڈھک دیا گیا کیونکہ یہ اردو زبان میں لکھی ہوئی ہے، ویسے بھی یونیورسٹی انتظامیہ پر اردو زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک کے تمام الزامات لگتے رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Demand to Remove Indo Islamic Question From AMU Entrance Exam: اے ایم یو کے داخلہ امتحان سے انڈو اسلامک سوالات ہٹانے کا مطالبہ

اے ایم یو انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹی میں موجود تاریخی تعمیرات کا رنگ و روغن کروائیں اور ان کی تاریخ کی تختیاں لگا کر ان کو محفوظ کریں تاکہ آنے والی نسل ان تعمیرات کی اہمیت اور تاریخ کو جانے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی Aligarh Muslim University ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے، جس میں سب سے زیادہ تاریخی عمارتیں Historic Buildings موجود ہیں۔ یہاں 1801 کی تعمیر شدہ 'پیرو ہاؤس' بھی موجود ہے۔ بانی درس گاہ سر سید احمد خان کے دور کی تعمیرات پر تاریخ کو پتھروں پر نصب اس لیے کروایا گیا تھا تاکہ نئی نسل تعمیرات کی تاریخ اور اہمیت کو جانے اور قیامت تک تاریخ محفوظ ہو سکے۔

اے ایم یو میں سرسید کے زمانے کا تاریخی فوارہ بدحالی کا شکار

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں موجود اہمیت کی حامل اور قدیم تعمیرات کچھ ایسی بھی ہیں جو بدحالی کا شکار ہیں جس پر نصب تاریخ کو یا تو رنگ سے ڈھک دیا گیا یا بدحالی کے سبب تاریخ غائب ہوتی جا رہی ہے، جس میں سرسید ہاؤس میں موجود پانی کے کویں WELL، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی تاریخی بونڈری، بیگم پور گیٹ، روشن تاریخ کی وراثت طلبہ یونین ہال کے سامنے موجود پانی کا فوارہ شامل ہے۔ تقریباً 157 سال قدیم پانی کے فوارے کی بدحالی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس کی تاریخ معلوم ہی نہیں یا بھول گیا۔ فوارہ پر نصب تاریخ کو بھی رنگ سے ڈھک دیا گیا ہے۔

اے ایم یو اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا اس قدیم اور اہمیت کے حامل فوارہ سے متعلق الگ الگ لوگوں نے لکھا ہے۔ مولوی افتخار عالم مہالیلوی لکھتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ سرسید احمد خان نے جو 1863 میں 'سائنٹیفک سوسائٹی' قائم کی جو بعد میں دواخانہ طبیہ کالج بنی وہاں پر ایک بہت عالی شان عمارت بنی تھی۔

اس عمارت کے بالکل سامنے ایک بے حد خوبصورت پانی کا فوارہ تھا جس کو اس وقت کے کلیکٹر لین نے اپنی بیٹی کے انتقال کے بعد اس کی یاد میں بنوایا تھا، جس کو سائنٹیفک سوسائٹی کے لیے سرسید احمد خان کو عطیہ کیا گیا تھا۔ اس عطیہ کو سرسید احمد خان نے قبول کیا اور خود اس کو وہاں لگوایا تھا۔

ڈاکٹر راحت ابرار نے کہا کہ تاریخی فوارہ کی بدحالی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس کی تاریخ معلوم ہی نہیں یا بھول گیا۔

انتظامیہ کی لاعلمی کے سبب ہی فوارے کے پتھر پر نصب تاریخ پر بھی رنگ کر دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے فوارہ پر نصب تاریخ کو رنگ سے اس لیے ڈھک دیا گیا کیونکہ یہ اردو زبان میں لکھی ہوئی ہے، ویسے بھی یونیورسٹی انتظامیہ پر اردو زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک کے تمام الزامات لگتے رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Demand to Remove Indo Islamic Question From AMU Entrance Exam: اے ایم یو کے داخلہ امتحان سے انڈو اسلامک سوالات ہٹانے کا مطالبہ

اے ایم یو انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹی میں موجود تاریخی تعمیرات کا رنگ و روغن کروائیں اور ان کی تاریخ کی تختیاں لگا کر ان کو محفوظ کریں تاکہ آنے والی نسل ان تعمیرات کی اہمیت اور تاریخ کو جانے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.