ریاست اترپردیش میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جس میں سب سے زیادہ تاریخی عمارات موجود ہیں، جن میں سے کچھ تعمیرات موجودہ انتظامیہ کی لاعلمی کے سبب بدحالی کا شکار ہے، ان عمارت کی خستہ حالی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی یہ تعمیرات زمین بوس ہو جائیں گی۔ Historic buildings in Aligarh Muslim University
یونیورسٹی انتظامیہ کی توجہ کی طلب گار تاریخی تعمیرات میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بونڈری وال، بیگم پور گیٹ، روشن تاریخ کی وراثت، سرسید احمد خان کو دیا جانے والا تحفہ اور تاریخی فوارہ بھی شامل ہے جو یونیورسٹی طلبہ یونین ہال کے سامنے موجود ہے۔
یونیورسٹی طلبہ یونین کے سابق نائب صدر حمزہ سفیان نے بتایا کہ 'جب میں طلبہ یونین کا نائب صدر تھا تو ہم نے اس کی تزئین کاری کے لیے کئی مرتبہ وائس چانسلر کو خط بھی لکھے تھے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے رقم دینے سے منع کردیا، پھر ہم نے یونیورسٹی المنائی سے بھی اپیل کی تاکہ ہم اس کی تاریخ کو محفوظ کر سکیں لیکن گزشتہ تین سالوں میں ابھی تک اس کی صفائی بھی نہیں ہوئی۔'
حمزہ سفیان نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'جب تین سال قبل وائس چانسلر اور موجودہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس فوارے کی بدحالی اور تاریخ کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا، ہم نے خط بھی لکھے تھے تو اب تک اس کی صفائی کیوں نہیں کروائی گئی، اس میں وائس چانسلر کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تھا کیونکہ وہ بھی یونیورسٹی کے المنائی ہیں اور یونیورسٹی کے سربراہ بھی ہیں۔' Hamza Sufyan on AMU VC
حمزہ سفیان کا کہنا ہے کہ 'جب ہم نے اور وائس چانسلر نے المنائی سے فوارے کی تزئین کاری کے لیے فنڈز کی اپیل کی تھی تو باقاعدہ بینک میں ایک اکاؤنٹ بھی کھولا گیا تھا جس میں پیسے بھی آئے تھے۔ کل کتنی رقم آئی تھی یہ تو ٹریزرار کو ہی معلوم ہوگا لیکن پیسے آئے تھے باوجود اس کے ابھی تک فوارے کی صفائی نہیں کرائی گئی، تاریخی فوارے کی بدحالی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جلد ہی یہ زمین بوس ہو جائے گا۔' Decorating of AMU fountain
یہ بھی پڑھیں: Bad Condition of Bhikampur Gate: اے ایم یو کا تاریخی بھیکم پور گیٹ، بدحالی کا شکار
واضح رہے قدیم اور اہمیت کے حامل فوارہ سے متعلق الگ الگ لوگوں نے لکھا ہے۔ مولوی افتخار عالم مہالیلوی نے لکھا ہے کہ سرسید احمد خان نے سنہ 1863 میں 'سائنٹیفک سوسائٹی' قائم کی تھی جو بعد میں دواخانہ طبیہ کالج بنا اور وہیں پر ایک عالی شان عمارت بھی بنی تھی، اس عمارت کے بالکل سامنے ایک بے حد خوبصورت پانی کا فوارہ تھا، جس کو اس وقت کے کلیکٹر لین نے اپنی بیٹی کے انتقال کے بعد اس کی یاد میں بنوایا تھا، جس کو سائنٹیفک سوسائٹی کے لیے سرسید احمد خان کو عطیہ کیا گیا تھا۔ سرسید احمد خان نے اس کو قبول کیا اور خود اس کو وہاں لگوایا تھا۔
یونیورسٹی کا سالانہ کروڑوں روپے کا بجٹ ہونے کے بعد بھی تقریبا 160 سال پرانے تاریخی اہمیت کا حامل فوارے کی صفائی نہیں کرائی گئی۔