اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے پریورتن چوک پر 19 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرہ ہوا تھا۔
پہلے مظاہرہ پرسکون تھا لیکن شام ڈھلتے ڈھلتے پر تشدد ہو گیا جس کے بعد بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی گئی۔
اس سے سرکاری املاک کو کروڑوں کا نقصان ہوا، جس کے بعد ضلع انتظامیہ اور لکھنو پولیس نے ایسے لوگوں کی تصدیق کر کے انہیں نوٹس بھیجا تھا۔
شہر کے کئی علاقوں کے ساتھ ہی حضرت گنج کے اٹل چوک میں 57 لوگوں کی فوٹو بڑی بڑی ہورڈنگز پر شائع کی گئی۔
چیف جسٹس کی بینچ نے اس معاملے کو لے کر لکھنؤ کے ڈی ایم اور ڈویژنل پولیس کمشنر سے پوچھا ہے کہ "وہ اتوار کی صبح 10 بجے ہائی کورٹ کو بتائیں کہ کس قانون کے تحت شہر میں پوسٹر لگایا گیا ہے۔"
حالانکہ خراب موسم کی وجہ سے یہ سماعت دس بجے نہ ہو کر 3:00 بجے ہوئی، جس کے بعد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔ اب یہ فیصلہ کل دو بجے سنایا جائے گا۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نیرج ترپاٹھی نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ضلع انتظامیہ نے بھی کورٹ کے سامنے اپنی بات رکھی اور کورٹ نے کل تک کے لئے اپنا فیصلہ ریزرو کر لیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جن لوگوں کے فوٹو لگائے گئے ہیں، اُن میں سابق آئی پی ایس ایس آر دارا پوری، شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس، کانگریسی لیڈر صدف ظفر، سماجی کارکن دیپک مشرا کے علاوہ 53 دیگر لوگ اس فہرست میں شامل ہیں۔
ان سبھی لوگوں کو ایک کروڑ 55 لاکھ روپے وصولی کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
کورٹ نے اپنے فرمان میں کہا کہ پوسٹر میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کس قانون کے تحت ایسا کیا گیا ہے؟ کورٹ کا ماننا ہے کہ پبلک پلیس پر اس طرح کے پوسٹر لگانا بنا اجازت کے غلط ہے۔ یہ رائٹ ٹو پرائیویسی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔