ہاتھرس متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ کے پانچ اراکین نے آج الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ میں اپنا بیان قلمبند کروایا۔ قبل ازیں دلت لڑکی کے افراد خاندان سخت سیکوریٹی کے بیچ ہاتھرس سے لکھنؤ پہنچے تھے۔
الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ہاتھرس کیس کی سماعت کی اور فریقین کی باتیں سنیں۔ سب سے پہلے متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ نے بنچ کے سامنے اپنی بات رکھی جبکہ مقتولہ کی والدہ نے تفصیل سے عدالت کو پورا واقعہ سنایا۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل چیف سکریٹری (محکمہ داخلہ) اویناش اوستھی، ڈی جی پی ایچ سی اوستھی بھی موجود تھے۔ حکومت کی جانب سے اے اے جی ونود شاہی نے تفصیلی جواب داخل کیا۔ ہاتھرس کے ڈی ایم پروین کمار اور ہاتھرس میں اس وقت کے ایس پی نے بھی واقعہ کے بارے میں تفصیلات سے عدالت کو واقف کروایا جس کے بعد عدالت نے سماعت کو 2 نومبر تک کےلیے ملتوی کردیا جبکہ اس کیس میں اب اگلی سماعت 2 نومبر کو مقرر کی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق متاثرہ خاندان نے عدالت سے کیس کو ریاست کے باہر منتقل کرنے کی درخواست کی اور مقتول کی آخری رسومات کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی۔
ارکان خاندان کی جانب سے وکیل سیما کشواہا نے بتایا کہ عدالت نے متاثرہ خاندان کے سبھی پانچ ارکان کی بات کو سنا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا سوال یہ تھا کہ آخر آدھی رات کو آخری رسومات کیوں ادا کی گئی؟ کبلپ گاؤں میں بڑی تعداد میں پولیس جوان تعینات تھے۔ انہوں نے پولیس اور انتظامیہ کی کاراوئی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مقتولہ کی عزت کے ساتھ آخری رسومات کیوں ادا نہیں کی گئی جبکہ اس کی لاش کو کیروسین ڈال کر جلادیا گیا۔
حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ اے اے جی ونود شاہی نے بتایا کہ عدالت میں متاثرہ خاندان کے بیان قلمبند کئے گئے جبکہ 2 نومبر کو آئندہ سماعت مقرر ہے۔