حاجی فضل الرحمن نے کہا کہ جو لوگ باہر سے آئے ہوئے ہیں زیادہ زیادہ سے ان لوگوں میں ہی یہ موجود ہے، اس میں چاہے تبلیغی جماعت کے لوگ ہوں یا دیگر افراد، انہیں کے ذریعہ یہ بیماری ہمارے ملک میں آئی ہے۔
تبلیغی جماعت کے ذریعہ اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کو لے کر حاجی فضل الرحمن نے کہا ہے کہ 30جنوری کو ڈبلو ایچ او کی جانب سے احتیاط برتنے کا کہا گیا تھا۔اس کے بعد 20فروری کو بھی ایک آرڈر آیا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ اس معاملہ پر سختی سے عمل کریں، لیکن اس کے بعد بھی بیرون ممالک سے پروازیں آتی رہیں، جس میں بیرون ممالک سے افراد بھارت میں آتے رہے۔
حاجی فضل الرحمن نے کہا کہ اگر اسی وقت بھارت سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے بیرون ملک سے آنے والے افرادپر پابندی عائد کردیتا تو آج یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتا۔
انہوں نے کہا کہ ان حالات میں بھی ہولی تہوار کا انعقاد کیا گیااور پارلیمنٹ کے اجلاس کو بھی آگے بڑھایا گیا اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد پر ان کا پرزور استقبال کیا گیا، ان سب باتوں کو تبلیغی جماعت کے اوپر ڈال دیا گیا جوسراسر غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں ہماری حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنے باہر سے آئے ہوئے افراد۔سہارنپور میں مولانا سعد کے رشتہ دار ساجد اور راشد کورونا پازیٹیو آنے پر حاجی فضل الرحمن نے کہا کہ جب وہ لوگ بیرون ملک سے آئے تھے انہیں چیک اپ کروالینا چاہیے تھا، یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔
مہاراشٹر میں ماب لنچنگ کو لے کر حاجی فضل الرحمن نے کہا ہے کہ یہ غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے ، اس پر حکومت ہند کو چاہیے کہ اس پر سخت کارروائی کرے اور اس پر غور کریں کہ ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔ اگر ان لوگوں پر سخت کارروائی نہیں کی گئی تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارت میں جنگل راج چل رہا ہے۔