آسمان میں اڑتی ہوئی رنگ برنگی پتنگیں ہر خاص و عام کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ سکون کے کچھ خاص اوقات ہوں یا پھر کوئی تہوار، پتنگیں اپنی لمبی ڈور اور مانجھے کے ساتھ آسمان میں گردش کرتی نظر آنے لگتی ہیں۔
لیکن رامپور میں اڑنے والی پتنگیں کسی خاص موقع کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ یہاں ہر روز آسمان پر پتنگیں اڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پتنگ شائیقین کا شوق پورا کرنے کے لئے رامپور میں برسوں سے بیشتر افراد پتنگ بنانے کے کام سے وابستہ ہیں۔
بھارت میں 2018 کے اعداد وشمار کے مطابق پتنگ بازی کا شعبہ 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر پر محیط ہے۔ ہمارے ملک سے پوری دنیا میں پتنگیں برآمد کی جاتی ہیں، لیکن زیادہ فروخت مقامی مارکیٹ میں ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جی ایس ٹی کی مار پتنگ کے چھوٹے کاروباریوں پر بھی پڑی ہے۔
وہیں پتنگ کاریگر اکرم علی کا کہنا ہے کہ یہ کام پورے طور پر مزدوروں اور چھوٹے کاریگروں پر مشتمل ہے جو کہ اپنے دستکاری کے ہنر سے وہ یہ خوبصورت پتنگیں تیار کرتے ہیں۔ اگر اس سے جی ایس ٹی ہٹ جائے تو اس کام کو کافی فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ صدیوں سے ایشیا کے اس خطے میں پتنگ بازی مصروف رہنے کا ایک مشغلہ رہا ہے۔ تاریخ داں کہتے ہیں کہ پتنگ بازی ابتدائی طور پر یہاں آنے والے چینی سیاحوں نے متعارف کرائی تھی۔ تاہم یہ بھارت میں ایک موسمی سرگرمی ہے۔ ملک کے اکثر خطوں میں یوم آزادی، عید اور مکر سکرانتی کے تہوار کے دوران پتنگوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔
مزید پڑھیں:
'سترہ اکتوبر سے ٹرین خدمات شروع کرنے کا اعلان'
رامپور میں حکام اس روایتی کام کو فروغ دینا تو چاہتے ہیں لیکن اس کو کو تبھی فروغ حاصل ہو سکتا ہے اگر اس سے بے جا پابندیاں اور ٹیکس ختم دیے جائیں تاکہ لاکھوں کی تعداد میں بیروزگار مزدور طبقہ اس کو آسانی سے اپنا ذریعہ معاش بنا سکے اور بیروزگاری پر کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکے۔