پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ مجتبیٰ حسین ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ بیسویں صدی کے عظیم قلم کار کو مجتبیٰ حسین کہا جاتا ہے- انہوں نے کہا کہ مجتبیٰ حسین کی شخصیت کئی اعتبار سے قابل ذکر ہے
انہوں نے کہا اردو ادب میں طنز و مزاح کی ایک روشن تاریخ ہے ۔ رشید احمد صدیقی سے لے کر پطرس بخاری تک۔ احمد جمال پاشا سے لے کرمقبول تک اردو ادب کی یہ وہ ادبی شخصیات ہیں جو گذشتہ برس دنیائے اردو ادب کو سوگوار کرتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردیں۔
انہوں نے مزید کہا 'مشتاق احمد یوسفی صاحب بلا شبہ برصغیر میں چوٹی کے قلمکار تھے. مشتاق احمد یوسفی صاحب کے انتقال کے بعد اگر بر صغیر میں کوئی بڑا نام تھا تو وہ بلاشبہ مجتبیٰ حسین صاحب ہی تھے۔ مرحوم نہ صرف یہ کہ انشائیہ اور طنز و مزاح کے لحاظ سے بلکہ وہ ایک بے حد حساس انسان تھے ان کی تمام تر تخلیقات میں انسانیت سے جو ناطہ ہے وہ کافی معیاری ہے.
انہوں نے کہا کہ دراصل جو طنز و مزاح نگار ہوتا ہے وہ معاشرے کے اتار چڑھاؤ کو خندہ پیشانی کے ساتھ اس طرح پیش کرتاہے کہ آپ مسکرائیں بھی اور اور معاشرے کے اتار چڑھاؤ کا احساس کرنے پر مجبور بھی ہوجائیں، انسان کی زندگی کی شکست و ریخت ہوسکتی ہے معاشرے کے ٹوٹ پھوٹ ہوسکتی ہے معاشرے کی فرسودہ نظام ہو سکتی ہے. سماج کے ان تمام تر ان کہے پہلوؤں پر ایک ادیب ہی قلم اٹھا تا ہے
پروفیسر آفتاب نے مزید کہا کہ سیاسی اعتبار سے جو صورت حال ہے اورپوری دنیا کی سیاست میں جس طرح سے مکاریاں ہیں اور جس طرح سے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائیاں ہو رہی ہیں ۔ان سب کے علاوہ موجودہ دور میں جس طرح سے ادب اور ادیبوں کا ادب سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے اور کس طرح ہمارے یہاں بھوک، بیروزگاری، پریشانی، فساد، ظلم، زیادتی وغیرہ مجموعی طور پورے معاشرے کو لہولہان کر رہا ہے ایک حساس طبیعت کا قلمکار انشائیہ نگار ایسے جلتے ہوئے موضوعات کو مزاح کی چاشنی میں پیش کرتا ہے.
انہوں نے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دہلی میں جب ادبی محفلیں ہوتی تھیں تو مجتبٰی حسین صاحب کا اس محفل میں شامل ہونا اس کی کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی. اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ایک بڑے ادیب قلم کار ہونے کے باوجود نئی نسل سے وہ بہت ہی ہمت افزا رشتہ رکھتے، خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے اور بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے.
مجتبیٰ حسین صاحب جب مسائل کو جب وہ اپنا موضوع بناتے تھے تو آپ نا صرف اس کا احساس سکتے بلکہ آپ کے اندر بھی ایک ایسا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے جس سے آپ خود اس میں شامل ہوجاتے ہیں.
پروفیسر آفتاب آفاقی نے کہا کہ مجتبی حسین صاحب جو بھی لکھتے تھے وہ دنیا ہمارے آس پاس کی ہوتی ہے ۔ہمارا معاشرہ غریب ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ایک چھوٹی سی مثال ان کے انشائیہ سے انہوں نے رکشے والے پر لکھا 'ایک شخص کے حوالے سے پوچھتا ہے کہ کیا حال ہے چلو گے وہ کہتا ہے بالکل چلیں گے جب کرایہ پوچھا تو کہا آٹھ آنہ لوں گا انہوں نے کہا کہ بس کا کرایہ تو دس پیسہ ہے تو رکشے والے نے جواب دیا کہ جناب والا بس پٹرول سے چلتی ہے اور رکشا خون سے چلتا ہے یہ مجتبیٰ حسیں ہی لکھ سکتے تھے یہ جو درد ہے جو قرب ہے اچھا تخلیق کار ہی محسوس کرتا ہے.
مجتبیٰ حسین کے پدم شری ایوارڈ ایوارڈ واپس کرنے کے سوال پر آفتاب آفاقی نے کہا کہ دراصل فراق گورکھپوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جو بڑا ادیب یا شاعر ہوتا ہے اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ بڑا انسان بھی ہوتا ہے اور مجتبیٰ حسین کی دو خاصیت تھی وہ یہی تھی کہ نہ صرف یہ کہ وہ بڑے تخلیق کار تھے بلکہ وہ بڑے انسان بھی تھے اور بڑے انسان کی خاصیت ہوتی ہے کہ ذاتی مفادات کو قربان کر کے اجتماعی و معاشرتی مفادات کو مقدم سمجھا. انہوں نے جو ایوارڈ واپس کیا تھا وہ علامتی طور پر احتجاج تھا.