علی گڑھ: عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈی شعبہ تاریخ کے پانچ پروفیسرز کو انڈین ہسٹری کانگریس (آئی ایچ سی) میں مختلف عہدوں کے لیے منتخب کیا گیا ہے، حال ہی میں کاتیہ یونیورسٹی وارنگل تلنگانہ میں منعقدہ ہونے والی انڈین ہسٹری کانگریس کے 82 ویں اجلاس کے دوران پروفیسر سید علی ندیم رضاوی کو آئی ایچ سی کا دوبارہ سیکرٹری منتخب کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ پروفیسر شرین موسوی کو نائب صدر، پروفیسر ایس جابر رضا کو خزن اور پروفیسر مانوندر کمار پنڈھیر کو جوائنٹ سیکرٹری منتخب کیا گیا ہے۔ جبکہ معروف مورخ اور اے ایم یو میں پروفیسر ایمریٹس پروفیسر عرفان حبیب کو انڈین ہسٹری کانگریس کے ایگزیکیٹو ممبر کے طور پر بلا مقابلہ منتخب کیا گیا ہے۔
انڈین ہسٹری کانگریس کے دوبارہ سیکریٹری منتخب ہونے والے پروفیسر سید علی ندیم رضاوی اور ایگزیکیٹو ممبر نامور مؤرخ پروفیسر ایمریٹس عرفان حبیب نے بتایا حکومت کی جانب سے انڈین ہسٹری کانگریس کے سالانہ اجلاس کو دیے جانے والے فنڈ کو بند کر دیا گیا ہے۔
کانفرنس کے دوران ری کنسٹرکٹنگ انڈین ایکنامک ہسٹری کے عنوان پر علی گڑھ ہسٹورین سوسائٹی (اے ایچ ایس) کے زیر اہتمام ایک پینل مذاکرہ ہوا جس میں پروفیسر ایمریٹس عرفان حبیب نے کلیدی خطبہ پیش کیا، اس میں پروفیسر کیسوان ویلوتھ، پروفیسر راجن گروکل، پروفیسر پربھات پٹنائک، پروفیسر راج شیکھر باسو سمیت درجن بھر مؤرخین نے اپنے مقالے پیش کیے۔
آئی ایچ سی کے تین روزہ سیشن میں قدیم، عہد وسطی، جدید ہند کے علاوہ دیگر ممالک، اثار قدیمہ اور معاصر ہندوستانی تاریخ کے زیلی عنوانات کے تحت 1070 تحقیقی مقالے پیش کیے گئے۔
سید علی ندیم رضاوی نے ای ٹی پی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا انڈین ہسٹری کانگرس نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے مورخین کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کا قیام 1935- 36 میں آلہ اباد میں عمل میں ایا اور اس کا پہلا اجلاس پونے میں ہوا، اس کے اراکین کی تعداد ہزاروں میں ہے اور تنظیم تقریبا پورے برصغیر کا احاطہ کرتی ہے۔
یونیورسٹی کے پانچ پروفیسرز کو انڈین ہسٹری کانگرس کے مختلف عہدوں پر فائض کیے جانے پر پروفیسر رضاوی نے انڈین ہسٹری کانگرس کا شکریہ بھی ادا کرتے ہوئے کہا آج ہمارے ملک کی تاریخ ایک طریقہ سے خطرے میں نظر آرہی ہے۔
انڈین ہسٹری کانگریز کا سالانہ اجلاس ہر سال منعقد کیا جاتا ہے، جس کا مقصد ہندوستان کے سائنٹفک سیکولر ماضی کو بنا کسی مذہب کے تمام مذاہب اور ملت نے مل جل کر جس طرح سے ہندوستان کی ثقافت کی تشکیل دی تھی جو آج جانا جاتا ہے، ہم قدیم اور جدید دور کا سیکولر ہوکر مطالعہ کرتے ہیں شاید ایسی لئے کچھ ایسے لوگ جو مذہب کے نام پر پورے سماج کو بانٹنا چاہتے ہیں وہ ہم سے خفا رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اے ایم یو کے مؤرخین انڈین ہسٹری کانگریس کے لئے منتخب
شاید یہی وجہ ہے تقریبا 2016 سے اب تک حکومت کی جانب سے ملنے والا فنڈ ختم ہوتا چلا گیا، اس لئے تلنگانہ کے سالانہ اجلاس میں حکومت کا پیسا نہیں تھا، ہم نے مندوبین اور رکنیت کی فیس کی مدد سے سالانہ اجلاس منعقد کیا تھا اور اگے بھی ہماری کوشش رہے گی کہ تمام مذاہب نے مل جل کر ایک مشرکہ ثقافت شکیل دیتھی اسی مشرکہ ثقافت کو، اسی تاریخ کو ہم اپنی نوجوان نسل تک پہنچاتے رہیں گے چاہے ہمیں حکومت فنڈ دے یا نہ دے۔