اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ 'حکومت نے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے ہاتھرس سانحہ کا پورا رخ موڑ دیا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'جب بھی کوئی مسلم تنظیم عوامی مسائل پر آواز بلند کرتی ہے تو ان پر پابندی عائد کرنے کے لیے طرح طرح کا پروپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے۔'
اسی سلسلے میں یوپی پولیس نے کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹ کے صحافی صدیق کپن کو گرفتار کر لیا ہے جس کے بعد وہاں کی تنظیم نے گرفتاری کو غیر قانونی بتاتے ہوئے انہیں فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ یوپی پولیس نے صدیق کپن کو پی ایف آئی سے منسلک ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا ہے۔
صدیق کپن ورکنگ جرنلسٹ کے جنرل سکریٹری ہیں اور آن لائن ملیالم نیوز پورٹل سے جڑے ہیں۔ ورکنگ جرنلسٹ نے کہا کہ 'صدیق کی گرفتاری کے بعد ان کے اہل خانہ اور دوست و احباب کو یوپی پولیس نے کوئی خبر نہیں دی جو سپریم کورٹ کوڈ کی جاری کردہ گائیڈ لائن کی خلاف ورزی ہے۔ ان کی گرفتاری ایک صحافی کے کام کاج میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کی گئی ہے۔'
رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ 'پی ایف آئی عوامی مسائل پر آواز بلند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار اس پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے تاکہ حکومت کے خلاف کوئی کھڑا نہ ہو سکے۔ اسی ضمن میں چار صحافیوں کو گرفتار کر کے انہیں جیل بھیج دیا گیا جو غیر قانونی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'سب کو معلوم ہے کہ ہاتھرس کا معاملہ کس نے کیا اور کس طرح سے ہوا؟ باوجود اس کے پولیس اور انتظامیہ مجرموں کو بچانے میں لگی رہی۔ یہاں تک کہ متاثرہ کی لاش کی اہل خانہ کی اجازت بغیر رات میں ہی آخری رسومات ادا کر دی گئی اور اب الزام 'پاپولر فرنٹ آف انڈیا' پر لگایا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے کا مقصد حکومت کی ناکامیوں کو چھپانا ہے۔'
رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ 'حکومت مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنا رہی بلکہ مسلمانوں کے ذریعے ہندوؤں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے، یہ بات مسلمانوں کو سمجھ لینی چاہیے۔'
انہوں نے کہا کہ 'کوئی بھی سرکار ہو، وہ سماج میں نفرت پھیلا کر اپنی سیاست کرتی ہے، جب ہندو مسلم ان کو سمجھ جائیں گے، تب کسی بھی پارٹی کے لیے نفرت کی سیاست کرنا مشکل ہوجائے گا۔'
وہیں ملک بھر میں کئی تنظیموں کی جانب سے بیانات جاری کیے جارہے ہیں۔ پریس کلب آف انڈیا نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'کپن کو تاخیر کیے بغیر رہا کیا جانا چاہیے۔'
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری انیس احمد نے کہا کہ 'ہاتھرس جنسی زیادتی معاملے کو حل کرنے میں ناکام ہونے پر اترپردیش حکومت عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پی ایف آئی پر بے بنیاد الزام لگا رہی ہے۔'
انیس احمد نے مزید کہا کہ 'گرفتار شدہ چار میں سے دو افراد ایک طلباء تنظیم سی ایف آئی کے رکن ہیں اور صدیق کپن نامی ایک دیگر شخص صحافی اور کیرالہ یونین ورکنگ جرنلسٹ کا سکریٹری ہے۔ صحافیوں کی اس تنظیم نے بھی صدیق کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور اس کے خلاف سپریم کورٹ کا بھی رخ کیا ہے۔'
گرفتار نوجوان عتیق الرحمن کے بھائی متین نے بتایا کہ وہ جمعہ کے دن دوا کے لئے دہلی کے ایمس اسپتال گئے تھے۔ عتیق دل کے مرض میں مبتلا ہیں اور ہر مہینے دوا لینے جاتے ہیں۔
متین کے مطابق عتیق پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یوپی پولیس عتیق کو جھوٹے الزامات کے تحت پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے، وہ پی ایف آئی کے رکن نہیں ہیں۔ بھائی کے مطابق عتیق کیمپس فرنٹ آف انڈیا میں کام کرتے ہیں۔
ریاست اتر پردیش کے ہاتھرس سانحہ کے پیچھے سازش کے الزام میں پی ایف آئی کے چار اراکین کی گرفتاری کو ممتاز عالم دین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے سمجھ سے بالا تر بتایا ہے۔ انہوں نے تمام معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ہاتھرس جیسے معاملات کو روکنے کے لیے سماج کی اصلاح اور بزرگوں کو آگے آنے کا مشورہ دیا ہے۔
بارہ بنکی میں ایک ہوٹل کا افتتاح کرنے آئے مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ 'ہاتھرس کے پورے معاملے کی سی بی آئی سے تحقیقات کرا کر ملزمین کو سخت سزا دی جانی چاہئے لیکن معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنا مناسب نہیں ہے۔'
قابل ذکر ہے کہ جن چار مسلم صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کی رہائی کی آواز بلند ہونے لگی ہے۔ ذرائع کے مطابق جلد ہی سبھی صحافیوں کو رہا کر دیا جائے گا کیونکہ ان کے خلاف پولیس کو ابھی تک کوئی بھی پختہ ثبوت نہیں مل سکے۔