ان طالبات کے لیے تشویشناک لمحہ یہ ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر تقرری پانے والے فیروز خان کے خلاف طلبا جس طرح سے مظاہرے کر رہے ہیں اس سے انہیں تشویش ہے اور ان کے ذہنوں میں مستقبل کے تئیں کئی طرح سے وسوسے پیدا ہو رہے ہیں۔
بیشتر طالبات جو سنسکرت زبان میں اپنی مستقبل کو تلاش کر رہی ہیں اور ان کا خواب تھا کہ سنسکرت زبان میں وہ ٹیچر بن کر نمایاں کارکردگی انجام دیں گی اب ان کے ذہن میں مختلف سوالات گردش کر رہے ہیں۔
طالبات نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جو کچھ بھی فیروز خان کے خلاف ہورہا ہے وہ سراسر غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ زبان کسی کی جاگیر نہیں کوئی بھی اسے سیکھ سکتا ہے کیوں کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور معاشرے کا ہر فرد کوئی بھی زبان سیکھ بھی سکتا ہے اور اسے پڑھا بھی سکتا ہے۔ ایسے میں ایک خاص نظریے سے جوڑ کر سنسکرت زبان کو دیکھنا سراسر غلط ہے۔
طالبات نے بتایا کہ اسمٰعیل ڈگری کالج میں ہندو طالبات سے زیادہ مسلم طالبات سنسکرت زبان سیکھ رہی ہیں اب ایسے میں اگر زبان کو مذہب کے خانے میں تقسیم کر دیا جائے گا تو نہ صرف یہ کہ اس خاص زبان کی فروغ پر اثر پڑے گا بلکہ بڑا علمی سرمایہ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔