سابق آئی اے ایس انیس انصاری نے کہا کہ ہندو، مسلم، سکھ سمیت تمام مذاہب میں جو سیاسی رہنماء ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہر وقت 'مذہب اور تہذیب' کی بات ہو، اس سے ان کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جو غریب طبقہ ہے وہ اپنی بھوک و پیاس اور بنیادی ضروریات کو چھوڑ کر جے شری رام اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے ایسے لوگوں کے پیچھے چلتے رہتے ہیں، جن کی تعداد بہت محدود ہوتی ہے لیکن اس سے جمہوری نظام میں رخنہ پیدا ہوتا ہے۔
سابق آئی اے ایس نے کہا کہ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو پسماندہ طبقے کو سیاسی، تعلیمی اور معاشی طور پر آگے بڑھانا ہوگا، ایسے لوگوں سے میری اپیل ہے کہ وہ خود کو مذہب کی لڑائی سے الگ کر لیں، چاہے طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہو یا تبدیل مذہب کا۔
انیس انصاری نے بتایا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ہر شخص چاہے شہری ہو یا غیر شہری، اسے بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتا ہے لیکن آر ایس ایس تبدیلی مذہب جیسے مسئلہ کو پیدا کرکے سماج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تبدیلی مذہب سب سے زیادہ انگریز حکومت کے دور میں ہوا ہے۔ انگریزی حکومت میں بنگال، آسام اور کیرالا میں بڑی تعداد میں تبدیلی مذہب ہوا لہذا یہ عقیدے کا مسئلہ ہے اس میں زبردستی نہیں چلتی۔