سابق گورنر عزیز قریشی نے کہا کہ بابری مسجد مسئلہ پر کوئی بھی فیصلہ ہونے سے پہلے اس بات کی ذمہ داری طے ہوناچاہیے کہ بابری مسجد شہید کرنے میں کن لوگوں کا ہاتھ ہے؟ انکی تحقیقات کر کے کے ان پر مقدمہ چلانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس مسئلے پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے، تو سب بیکار ہے کیونکہ بابری مسجد شہید کرنے کے دوران رول آف لاء کو پیروں تلے روندا گیا۔
چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے پاس بڑی تعداد میں پولیس موجود تھی اور ان کے سامنے مسجد کو منہدم کرکے شہید کیا گیا۔ لہذا مسجد کو شہید کرنے اور کرانے والوں کی ذمہ داری طے کر کے ان پر سخت کاروائی یقینی بنانا چاہیے۔
عزیز قریشی نےکہا کہ "رام للا کی استھاپنا" موجودہ مقامات پر کس کے کہنے سے ہوئی ہے؟ اسکی بھی ذمہ داری ہونی چاہئے۔
کیونکہ جب سپریم کورٹ میں بابری مسجد تنازع کی سماعت چل رہی ہے تو وہاں پر پوجا یا رسومات کیسے ادا کی جارہی ہے، جبکہ دوسرے طبقے کو وہاں جانے کی اجازت بھی نہیں؟
آج سماعت کا آخری دن ہے اور اگلے ماہ تک بابری مسجد تنازع پر کورٹ کا فیصلہ آجائے گا۔ ایسے میں وہاں پر حکومت کی جانب سے بیان بازی کرنا انتہائی غلط بات ہے کیونکہ ابھی تک کورٹ کا کوئی فیصلہ نہیں آیا۔
ایسے میں وہاں پر مندر کی تعمیر کرانے کے لیے سارے اقدامات کرنا غیرقانونی اور ملک کے امن و امان و جمہوریت کے خلاف بھی ہے۔
سابق گورنر عزیز قریشی نے مسلمانوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھی بہت سارے قبضہ کیے ہیں۔ چاہے قبرستان ہو یا مساجد ۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو کا احسان کبھی نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ بابری مسجد کے لئے انہوں نے اپنی قوم کے خلاف جاکر مسلمانوں کا کھلے عام ساتھ دیا۔