مرادآباد: وقف ایکٹ قانون ختم کرنے کو لے کر سیاسی اور عوامی سطح پر موضوع بحث ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی راجیہ سبھا ہرناتھ سنگھ یادو نے اس قانون کو منسوخ کرنے کے لئے ایک پرسنل بل پیش کیا ہے جس کے بعد یہ ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ اور اسٹیٹ حج کمیٹی کے سابق چیئرمین مولانا زاہد رضا مرادآباد ایک مذہبی اجلاس میں شرکت کرنے پہنچے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں وقف بورڈ ایکٹ 1995 کو منسوخ کرنے کے لیے لائے گئے بل کو پیش کیے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
ای ٹی وی کے ساتھ خاص بات چیت کرتے ہوئے مولانا زاہد رضا نے حکومت کی نیت پر سوال اٹھائے، اُنہوں نے کہا کہ 2024 انتخابات سے پہلے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ اس بل کو پیش کیا گیا ہے۔
وقف جائیداد سے متعلق تفصیلی معلومات دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مذھبی اعتبار سے وقف سے متعلق حکم ہمارے قرآن میں بھی ہے اور حدیث سےبھی ثابت ہے۔ کسی شخص کے پاس اگر اس کی ضرورت سے الگ کوئی جائیداد ہے تو وہ شریعت پر عمل کرتے ہوۓ اس کو وقف علی الاولاد یا وقف علی الخیر کر دیتا ہے اور اس سے ہوئی آمدنی سے سبھی مذاھب کے ماننے والوں کو فائدہ ہوتاہے۔
انہوںنے کہاکہ ہمارے بزرگوں نے شریعت کے اسی حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنی مکان دکان اور جائیداد کو محفوظ رکھنے کے لئے انکو وقف کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ وقف اللہ کے نام ہوتا ہے اور وقف کی گئی جائیداد سے جو آمدنی ہوتی ہے اس سے صرف مسلمانوں کو ہی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ہندو سکھ عیسائی سبھی کو اسکا فائدہ ہوتا ہے۔
اس مسئلے کو اور سمجھاتے ہوئے انہوں نے ایک حدیث مبارکہ پیش کی جس میں ایک صحابی حضور کے پاس تشریف لاتے ہیں اور اپنی فوت ہوئی ماں کے ایصال ثواب کے لیے کوئی طریقہ پوچھتے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ ان کے نام سے کنواں خود دو جب تک لوگ اس کنویں کا پانی پیتے رہیں گے تمہاری والدہ کو ثواب ملتا رہے گا حضور نے پانی پینے والوں میں مذہب کی کوئی قید نہیں لگائی اور یہی طریقہ وقف جائیداد کا ہے کہ اس سے ہونے والی آمدنی سے صرف مسلمانوں کا بھلا نہیں ہوتا بلکہ سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔
مولانا زاہد رضا نے باضابطہ طور پر حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پرائیویٹ بل جو لایا گیا ہے تو اس پر مجھے شبہ ہی نہیں پورا یقین ہے کہ 2024 انتخابات کے پیش نظر اس بل کو لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اکثریت اور اقلیت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں؛متھرا شاہی عید گاہ کے سروے پر علما کا ردعمل
انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کے اپنے قانون ہیں اور حکومت ہند نے اس کے لیے وقف ایکٹ 1995 بنایا ہے جس کے تحت بورڈ اپنا کام کرتا ہے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی ادارے یا بورڈ میں اگر کوئی شخص غلط یا بے ایمان ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو جاتا کہ وہ بورڈ یا ادارہ غلط ہے۔