اترپردیش گورنر آنندی پٹیل کے دستخط کے بعد کل نافذ ہونے والے لو جہاد کے نئے قانون کے بعد پہلا معاملہ بریلی ضلع کے دیوریان تھانے میں درج کیا گیا ہے۔ پریشان کن فریق کا الزام ہے کہ دوسرے مذہب کا نوجوان مذہب تبدیلی کرنے کا دباؤ بناکر شادی کرنا چاہتا ہے۔
الزام ہے کہ اویس لڑکی کے والد اور اہلخانہ کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتا ہے، متاثرہ طالبہ کے والد کی شکایت پر پولیس نے مقدمہ درج کرکے ان الزامات کی تحقیقات شروع کردی ہے۔
واضح رہے کہ ضلع کے دیوریان تھانے کے گاؤں شریف نگر کے رہائشی ٹیکا رام کی بیٹی کی اس گاؤں کے رہائشی اویس احمد سے جان پہچان تھی ۔ دونوں انٹر کالج تک ایک ہی کالج میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ لڑکی کے مطابق ، تین سال قبل اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ، اس نے دوسرے کالج میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردیا۔ اویس احمد ایک سال سے مسلسل دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ مذہب بدل کر اس سے نکاح کرلے۔ شروع میں وہ ٹالتی رہی۔ ڈر تھا کہ اگر معاملے کو طول دیا تو بدنامی ہوگی۔ بعد میں مزاحمت کی تو اس نے اغوا کی دھمکیاں دینا شروع کردی۔ جھگڑے سے بچنےکےلئے لڑکی کے باپ ٹیکا رام نے جون میں اس کی شادی دوسری جگہ کردی تھی۔ الزام ہے کہ لڑکی کی شادی ہونے کے بعد بھی اویس اس کے گھر والوں کو پریشان کرتا تھا۔
ہفتے کے قریب آٹھ بجے لڑکی کے والد تھانہ دیوریا پہنچے اور پورا واقعہ بتایا اور رات قریب گیارہ بجے پولیس نے اس کے خلاف نئے قانون کے تحت معاملہ درج کیا۔
دیہی ایس پی سنسار سنگھ نے بتایا کہ طالبہ کے والد کی شکایت پر ملزم کے خلاف اتر پردیش غیر قانونی طریقہ سے تبدیلی مذہب قانون اور دفعہ 504، 506 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جبرا مذہب تبدیلی معاملے میں اترپردیش میں یہ پہلا کیس ہے، جس میں شکایت موصول ہوتے ہی پولیس نےمقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کردی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اترپردیش میں ریاستی حکومت کے ذریعہ منظور کردہ آرڈیننس کو گورنر آنندی بین پٹیل نے منظوری دے دی ہے، اس کے ساتھ ہی یہ نیا قانون کل سے نافذ العمل ہے۔
اس بل میں لالچ، جھوٹ یا جبری تبدیلی مذہب یا شادی میں مذہب کی تبدیلی کو جرم قرار دیا گیا ہے، نا بالغ، طے شدہ ذات وقبائل سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تبدیلی پر سخت سزا دی جائے گی۔ اجتماعی طور پر مذہب تبدیل کرانے والی سماجی تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوگی۔
تبدیلی مذہب کے ساتھ بین مذاہب شادی کرنے والوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس اس قانون کو نہیں توڑا ہے، لڑکی کے ذریعے مذہب تبدیل کر کے کی گئی شادی کو نہیں مانا جائے گا۔
قانون کے مطابق زبردستی لالچ کیے گئے تبدیلی مذہب کو قابل دست اندازی اور نا قابل ضمانت جرم مانا جائے گا، نیز اس قانون کی پامالی پر 15 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیے جانے کے علاوہ پانچ برس کی قید کی سزا ہوگی۔
اگر یہی کام انتہائی پسماندہ ذات و قبائل سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں کریں گی 25 ہزار روپے جرمانہ اور تین برس سے دس برس تک کے قید کی سزا ہو سکتی ہے، غیر قانونی طور پر اجتماعی طور پر مذہب تبدیل میں کم سے کم پچاس ہزار روپے جرمانہ اور تین سے دس سال تک کی سزا ہوگی۔
مذہبی تبدیلی کے لے ضلعی مجسٹریٹ کو دو ماہ قبل مقررہ فارم کو بھرنا ہوگا۔ اس کی خلاف ورزی پر چھ ماہ سے تین سال تک قید اور کم سے کم دس ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔