لیچی کے درخت میں کم یا زیادہ مستقل بنیاد پر پھل آتے ہیں، جبکہ آم کے پرانے اقسام کے باغ میں آم ایک سال میں پھل دیتا ہے اور دوسرے سال پھل نہیں دیتا۔ جس کی وجہ سے آم سے مستقل آمدنی کی گرانٹی نہیں ہے۔
نیشنل لیچی ریسرچ سنٹر مظفر پور کے ڈائریکٹر وشال ناتھ کے لیچی کے باغات لگانے کے سلسلے میں کسانوں کو دی گئی تربیت اور بیداری کی وجہ سے حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر باغات لگانے کا کام تیز کیا گیا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے بھی لیچی لگانے میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے۔
ڈاکٹر وشال ناتھ نے بتایا کہ اترپردیش کے 30 اضلاع لیچی کے باغ کے لئے موزوں ہیں۔ ان اضلاع کی مٹی بلائی دومٹ ہے اور آب و ہوا سب ٹراپیکل ہے جو لیچی فصلوں کے لئے موزوں ہے۔ جن اضلاع میں لیچی کے باغات لگائے جاسکتے ہیں ان میں گورکھپور، کشین نگر، دیوریا، بلیا، اعظم گڑھ، مہاراج گنج، سنت کبیر نگر، بستی، گونڈا، بلرام پور، بارہ بنکی، سیتا پور، لکھنؤ، بریلی، پیلی بھیت، میرٹھ، مظفر نگر، سہارنپور، ہاپوڑ، شاملی اور بجنور شامل ہیں۔
اترپردیش کے کسان لیچی کی اعلیٰ اقسام شاہی، چائنا، بیدانا، گنڈاکی سمپادا اور گنڈاکی لیلیما لگا رہے ہیں۔ لیچی ریسرچ سنٹر نے حالیہ برسوں میں گنڈاکی سمپادا اور گنڈاکی لیلیما کی قسم تیار کی ہے۔ ان علاقوں میں کسان ہیج رو نظام یعنی آٹھ گنا چار میٹر پر پودا لگا رہے ہیں۔
سنہ 2000-2001 میں اتراکھنڈ کے الگ ہونے کے بعد لیچی کے باغات نئی ریاست میں چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر وشال ناتھ کے مطابق سنہ 2005-06 میں اترپردیش میں صرف 200 ہیکٹر میں لیچی کے باغات تھے جو سنہ 2017-18 میں بڑھ کر 3200 ہیکٹر تک پہنچ گئے تھے۔ ریاست میں ابھی جو باغات ہیں وہ پانچ سے 15 سال پرانے ہیں جس کی وجہ سے درخت پوری طرح سے تیار نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی وجہ سے پھل وافر مقدار میں نہیں مل رہے ہیں۔
سہارنپور کے کسان امت کمار نے 15 سال قبل شاہی لیچی کے باغات لگائے تھے، جنہوں نے اس وقت ہر درخت سے 125 کلو سے 150 کلو پھل حاصل کئے۔ مظفر نگر کے انیل توار، سہارنپور کے سکھ پال سنگھ، بجنور کے سنجے گوئل اور شاملی کے شیکھر پنڈیر نے حال ہی میں لیچی کے باغات لگائے ہیں۔ ان کسانوں کے مطابق لیچی میں ہر سال پھل لگتا ہے اور مارکیٹ میں اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔