ETV Bharat / state

Fake Letter Viral لڑکیوں کے اغوا سے متعلق ٹویٹر پر وائرل خط جھوٹا: پولیس

author img

By

Published : Jun 20, 2023, 4:19 PM IST

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر خط کو وائرل کرنے والے سمیر رضا علی کے خلاف مقدمہ درج ہوگا، پولیس نے خط اور اس کے ذریعے دی جانے والی اطلاع کو چھوٹا بتایا جس میں بڑی تعداد میں لڑکیوں کو اغوا کر ان کے ساتھ عصمت دری کے الزام لگائے گئے تھے۔

لڑکیوں کے اغوا سے متعلق ٹیوٹر پر وائرل وائل خط جھوٹا : پولیس
لڑکیوں کے اغوا سے متعلق ٹیوٹر پر وائرل وائل خط جھوٹا : پولیس
لڑکیوں کے اغوا سے متعلق ٹیوٹر پر وائرل وائل خط جھوٹا : پولیس

علیگڑھ: ریاست اترپردیش کے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے ٹویٹر پر 16 جون شام 8:49 بجے انگریزی زبان میں ایک خط ٹویٹ کیا گیا تھا جس میں علیگڑھ کے مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کے ساتھ عصمت دری کی اطلاع دی گئی تھی۔

ٹویٹر پر اے ایم یو، پی آر او اور علیگڑھ ڈی ایم کو ٹیگ بھی کیا گیا جو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوا۔ جس سے متعلق سرکل آفیسر (سی او) ابھے پانڈے نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں بتایا کہ چھان بین کے بعد ٹویٹر پر وائرل خط اور خط کے ذریعے دی جانے والی اطلاع غلط ہے اور ٹویٹر پر خط جاری کرنے والے سمیر رضا علی کے خلاف تھانہ سول لائن پر مقدمہ درج کرنے کی بات کہی ہے۔

ٹویٹر پر وائرل خط: ہنگامی صورتحال علی گڑھ میں بڑی تعداد میں مسلم لڑکیوں کو اغوا کیا گیا اور ان کی عصمت دری کی جا رہی ہے اور فلیٹوں میں تشدد کیا جا رہا ہے۔ان لڑکیوں کو سرسید نگر، جمال پور، زہرہ باغ، جیون گڑھ اور رام گھاٹ روڈ سمیت علی گڑھ کے آس پاس کے کئی مقامات پر فلیٹوں میں قید رکھا گیا ہے۔

ان میں سے اکثر کم عمر لڑکیاں ہیں۔ وہ مدد کے لیے چیختے ہیں لیکن کوئی نظر نہیں آتا کیونکہ پولیس، مقامی انتظامیہ اور حتیٰ کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ان کے اغوا، اسمگلنگ حتیٰ کہ ان کے ساتھ عصمت دری کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بات ناقابل یقین لگ سکتی ہے لیکن میرے پاس ان کی چیخ و پکار کے شواہد موجود ہیں جو ہر روز ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کو اس خوف سے قتل بھی کیا گیا ہو گا کہ وہ ان کے والدین کو مل جائیں گے۔

اس میں نہ صرف پولیس اور پولیس کے کرائے پر رکھے گئے جرائم پیشہ افراد ملوث ہیں بلکہ اس ریکٹ میں ہسپتال، ڈاکٹر، ایمبولینس اور یہاں تک کہ مقامی بلڈرز بھی شامل ہیں۔ ان کے آس پاس رہنے والے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان کی عصمت دری کریں اور ان کے ساتھ زیادتی کریں تاکہ وہ چپ رہیں اور باقی لوگ اس میں ملوث نہ ہوں۔ان لڑکیوں کا شکار کرنے میں ڈاکٹروں کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ فرار ہونے کی کوشش کرنے پر فرحین کو جے این ایم سی کے شعبہ نفسیات میں لے جایا گیا اور اسے بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ ایمبولینسوں کو دن دیہاڑے سڑکوں سے لڑکیوں کو اغوا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فرحین کے مطابق اسے منہ میں اینستھیزیا دیا گیا تاکہ وہ چیخ نہ سکے۔

یہ بھی پڑھیں:Gonda Bribe Case گونڈہ میں رشوت مانگنے پر دو پولیس اہلکار معطل

اس کی اطلاع کے مطابق کچھ ڈاکٹروں نے اسے زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔ اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے کچھ ریپ کرنے والوں کی شناخت کر لی ہے وہ اس وقت سرسید نگر میں ہے کیونکہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں، اسے کسی بھی وقت منتقل کیا جا سکتا ہے، مکینوں کا خیال ہے کہ یرغمال بنی لڑکیوں میں سے کچھ ساتھی ہو سکتے ہیں۔ سمیر رضا علی کے وائرل خط سے متعلق یونیورسٹی کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

لڑکیوں کے اغوا سے متعلق ٹیوٹر پر وائرل وائل خط جھوٹا : پولیس

علیگڑھ: ریاست اترپردیش کے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے ٹویٹر پر 16 جون شام 8:49 بجے انگریزی زبان میں ایک خط ٹویٹ کیا گیا تھا جس میں علیگڑھ کے مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کے ساتھ عصمت دری کی اطلاع دی گئی تھی۔

ٹویٹر پر اے ایم یو، پی آر او اور علیگڑھ ڈی ایم کو ٹیگ بھی کیا گیا جو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوا۔ جس سے متعلق سرکل آفیسر (سی او) ابھے پانڈے نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں بتایا کہ چھان بین کے بعد ٹویٹر پر وائرل خط اور خط کے ذریعے دی جانے والی اطلاع غلط ہے اور ٹویٹر پر خط جاری کرنے والے سمیر رضا علی کے خلاف تھانہ سول لائن پر مقدمہ درج کرنے کی بات کہی ہے۔

ٹویٹر پر وائرل خط: ہنگامی صورتحال علی گڑھ میں بڑی تعداد میں مسلم لڑکیوں کو اغوا کیا گیا اور ان کی عصمت دری کی جا رہی ہے اور فلیٹوں میں تشدد کیا جا رہا ہے۔ان لڑکیوں کو سرسید نگر، جمال پور، زہرہ باغ، جیون گڑھ اور رام گھاٹ روڈ سمیت علی گڑھ کے آس پاس کے کئی مقامات پر فلیٹوں میں قید رکھا گیا ہے۔

ان میں سے اکثر کم عمر لڑکیاں ہیں۔ وہ مدد کے لیے چیختے ہیں لیکن کوئی نظر نہیں آتا کیونکہ پولیس، مقامی انتظامیہ اور حتیٰ کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ان کے اغوا، اسمگلنگ حتیٰ کہ ان کے ساتھ عصمت دری کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بات ناقابل یقین لگ سکتی ہے لیکن میرے پاس ان کی چیخ و پکار کے شواہد موجود ہیں جو ہر روز ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کو اس خوف سے قتل بھی کیا گیا ہو گا کہ وہ ان کے والدین کو مل جائیں گے۔

اس میں نہ صرف پولیس اور پولیس کے کرائے پر رکھے گئے جرائم پیشہ افراد ملوث ہیں بلکہ اس ریکٹ میں ہسپتال، ڈاکٹر، ایمبولینس اور یہاں تک کہ مقامی بلڈرز بھی شامل ہیں۔ ان کے آس پاس رہنے والے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان کی عصمت دری کریں اور ان کے ساتھ زیادتی کریں تاکہ وہ چپ رہیں اور باقی لوگ اس میں ملوث نہ ہوں۔ان لڑکیوں کا شکار کرنے میں ڈاکٹروں کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ فرار ہونے کی کوشش کرنے پر فرحین کو جے این ایم سی کے شعبہ نفسیات میں لے جایا گیا اور اسے بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ ایمبولینسوں کو دن دیہاڑے سڑکوں سے لڑکیوں کو اغوا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فرحین کے مطابق اسے منہ میں اینستھیزیا دیا گیا تاکہ وہ چیخ نہ سکے۔

یہ بھی پڑھیں:Gonda Bribe Case گونڈہ میں رشوت مانگنے پر دو پولیس اہلکار معطل

اس کی اطلاع کے مطابق کچھ ڈاکٹروں نے اسے زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔ اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے کچھ ریپ کرنے والوں کی شناخت کر لی ہے وہ اس وقت سرسید نگر میں ہے کیونکہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں، اسے کسی بھی وقت منتقل کیا جا سکتا ہے، مکینوں کا خیال ہے کہ یرغمال بنی لڑکیوں میں سے کچھ ساتھی ہو سکتے ہیں۔ سمیر رضا علی کے وائرل خط سے متعلق یونیورسٹی کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.