اتر پردیش کے شہر کانپور کے قاضی حافظ عبدالقدوس ہادی کا کہنا ہے کہ لو جہاد قانون کو بناکر جس فرقہ واریت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اسی قانون کے نفاذ کے بعد سےفرقہ واریت کے معاملات میں مزید اضافہ ہواہے اور اب عملی طور پر اس قانون کا بیجا استعمال بھی ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ اگر غیر مسلم لڑکی کسی مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو اس پر اس نئے قانون کا نفاذ ہوتا ہے اور تمام دفعات اس مسلم لڑکے کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں ۔مگر اس کے برعکس اگر مسلم لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو اس پر اس نئے قانون کے اطلاق پر حیلہ سازی سے کام لیاجاتا ہے ۔لہذا ایسی صورت میں اس قانون کو ختم کرنا چاہیے
وہیں کانپور شہر کے وکلاء کے رائے میں لو جہاد کے آرڈیننس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔کیونکہ دستور ہند میں پہلے سے ہی اس طرح کی شادی کے لئے پوری طرح سے چھوٹ اور مراعات دی گئی ہے، مگر اب لو جہاد قانون بننے کے بعد سے یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کی فرقہ پرست تنظیمیں جو فرقہ وارانہ ماحول کو بنانے میں اہم رول ادا کیا کرتی تھیں وہ اس آرڈیننس کے آنے کے بعد سے اس طرح کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ر ہی ہیں،
کانپور کورٹ کے ایڈوکیٹ ظفر سہیل کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لڑکی دوسرے مذہب کے لڑکے سے شادی کرتی ہے تو یہ تنظیمیں اس کی دفاع میں میں پولیس پر دباؤ بنانے لگتی ہیں کی کوئی کاروائی نہ کی جائے۔ اور اگر غیر مسلم لڑکی مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو یہ تنظیمیں چراغ پا ہوجاتی ہیں اور پولیس پر مزید زیادتی کے لئے دباؤ بناتی ہیں۔ ایسی صورت میں اس قانون میں ایک ترمیم کرنا چاہیے ۔ جس سے متاثرہ لڑکا یا لڑکی کی شکایت کے بغیر کسی ایف آئی آر کے درج نہیں ہونا چاہیے.
انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں دیکھا گیا ہے کہ مدعی کی اجازت کے بغیر ہی پولیس نے خود مدعی بن کر تمام غیر ضروری دفعات میں مقدمہ بھی قائم کر لیا.
کانپور شہر کے قاضی حافظ عبدالقدوس ہادی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ معاشرے میں جس طریقے سے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری والدین کی ہے ۔سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی عادات اور حرکات و سکنات پر نگاہ رکھیں۔ اور ان کی تعلیم و تربیت قرآن اور سنت کی روشنی میں کریں جس سے اس قسم کے معاملات سامنے نہ آئیں.