ریاست اترپردیش کے ضلع جونپور میں شرقی اور مغل بادشاہوں کے دور کی بےشمار تاریخی عمارتیں آج بھی موجود ہیں، جن میں سے اکثر خستہ حالت میں ہیں اور بعض آج بھی اپنی شان و شوکت کی وجہ سے جونپور کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہی ہیں۔ انہیں میں سے ایک جھنجھری مسجد ہے۔
یوں تو جونپور میں شرقی اور مغل دور حکومت کے علمی و فنی شاہکار صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسی آب و تاب کے ساتھ نظر آرہی ہیں۔ اسی میں سے ایک ہے جھنجھری مسجد۔ یہ مسجد محلہ سپاہ شہر جونپور میں دریائے گومتی کے داہنے ساحل پر واقع ہے اس مسجد کو ابراہیم شاہ شرقی نے مسجد اٹالہ اور مسجد خالص مخلص کی تعمیر کے دوران بنوایا تھا چونکہ محلہ سپاہ خود ابراھیم شاہ شرقی کا آباد کیا ہوا تھا اور یہاں پر شرقی دور میں حکومت کی فوج، ہاتھی، گھوڑے، اونٹ اور خچر رہتے تھے۔
اسی محلے میں بزرگان دین اور اولیائے کرام کی بھی قیام گاہ تھی۔ یہیں پر حضرت قاضی نصیرالدین گنبدی، حضرت ابوالفتح سونبریس، سید صدر جہاں اجمل اور مولانا سراج الدین منہاج وغیرہ کا بھی مسکن تھا۔ ان کی خانقاہیں اور مدرسے تھے۔ مریدین اور طلبا کی بھی کثیر تعداد اسی محلے میں رہتی تھی۔ اسی چیز نے ابراھیم شاہ شرقی کو ایک عالی شان مسجد تعمیر کرانے پر مجبور کر دیا تھا۔
اس مسجد کے خاص مرکزی محراب پر بہت ہی خوبصورت و حسین جھنجھریاں ہیں، جو دیکھنے والوں کو محو حیرت کر دیتی ہیں۔ جنرل کننگھم اور ڈاکٹر فرہر نے جھنجھریوں کے حسن و جمال کی وجہ سے اس کو زنجیری مسجد کہا ہے جو اب عوام میں جھنجھری مسجد کے نام سے مشہور ہے۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ سکندر لودھی نے شرقی حکومت پر حملے کے دوران اس مسجد کو منہدم کرا دیا تھا اور مسجد کے کافی پتھر سکندر لودھی کے مسمار کرنے کے بعد یہاں کے پل وغیرہ کی تعمیر میں استعمال کیے گئے تھے۔ مگر اس وقت بھی بچے ہوئے مرکزی محراب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اٹالہ مسجد و جامع مسجد کے مقابلہ میں سائز کا لحاظ نہ کیا جائے تو یہ مسجد اپنی خوبصورتی اور نقش و نگار کی نزاکت کے لحاظ سے واحد پہچان رکھتی ہے۔
اس مسجد کے مرکزی محراب کے نصف حصے پر خط طغری میں آیت الکرسی ابھری ہوئی ہے اور وہ حدیث بھی کندہ ہے جس میں تعمیر مسجد کی طرف رغبت دلائی گئی ہے۔ کندہ آیت الکرسی کے حروف کافی لمبے اور چوڑے ہیں اور فن نسخ و طغری کا اعلیٰ نمونہ ہے اور یہ حروف اب بھی باآسانی پڑھے جا سکتے ہیں۔
دریائے گومتی کے ساحل پر ہونے کی وجہ سے اس مسجد کو سیلاب نے بھی کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت بھی یہ عمارت بے حد دلچسپ اور پسندیدہ ہے۔ عربی عبارت جو خط طغری میں ہے، پورے شہر کی عمارت میں ایک نمونہ ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں اب تباہی کی حالت میں ہیں، مگر محکمہ آثار قدیمہ حفاظت کر رہا ہے۔
مرکزی چہرے کا ستون جو محراب کو تھامے ہوئے ہے، 35 فٹ بلند ہے، اتنی چھوٹی ہوتے ہوئے بھی یہ مسجد اپنی شان و شوکت اور رعب و جلال میں بہت اہمیت کی حامل ہے اور دیکھنے والوں سے خراج تحسین حاصل کیا کرتی ہے۔
یہ مسجد ویران پڑی ہے۔ مسجد تک جانے کے لیے راستے تو ضرور بنے ہوئے ہیں مگر آپ کو کوڑا، کرکٹ کے انبار اور گندی نالیوں کو عبور کرتے ہوئے مسجد تک پہنچنا پڑتا ہے۔
اہلِ جونپور اس مسجد کو بھول چکے ہیں۔ اس مسجد کی در و دیوار شکستہ ہو رہی ہیں۔ دیواروں میں شگاف لگ گیا ہے۔ انتظامیہ اور آثارِ قدیمہ کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر اس کی صحیح طریقے سے مرمت ہو جائے تو جونپور میں سیاحت کے مواقع بھی بڑھ سکتے ہیں۔