لکھنو: اترپردیش میں اسمبلی اجلاس کا مانسون سیشن جاری ہے۔ ریاستی حکومت نے 43 برس بعد اسمبلی میں 1980 میں مرادآباد میں فرقہ وارانہ فساد پر رپورٹ پیش کی ہے۔ اسی معاملے میں سماجوادی پارٹی سے مراد آباد ضلع کے کانٹھ حلقہ سے رکن سمبلی کمال اختر نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ ملزمان کو سزا نہ دی جائے اور متاثرین کو انصاف نہ ملے۔ لیکن بی جے پی کو 43 برس بعد یہ معاملہ کیوں یاد آیا اس سے قبل بھی ریاست میں بی جے پی کی حکومت رہی ہے اور اس وقت بھی مراد آباد فسادات کی رپورٹ کو پیش کر سکتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مراد آباد ہی کیوں ریاست کے کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ فساد ہوئے ہیں، میرٹھ کے ہاشم پورہ، ملیانہ مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فساد ہوئے اس کی رپورٹ بھی اسمبلی میں پیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا، عید کے دن خوشی کو ماتم میں تبدیل کیا گیا تھا۔ حکومت کو دیگر فسادات کی بھی رپورٹ پیش کرنی چاہیے لیکن مرادآباد فساد کی ہی رپورٹ کیوں پیش کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست میں کئی اہم مسائل ہیں جس پر حکومت کو بات کرنی چاہیے، ریاست کی عوام مہنگائی، بے روزگاری جیسے مسائل سے دوچار ہے۔
مزید پڑھیں: تینتالیس برس بعد مرآداباد فساد کی رپورٹ آج اسمبلی میں پیش کی گئی
انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں ابھی رپورٹ پیش کی گئی ہے اور اس پر بحث کی جائے گی اور جو بھی رپورٹ میں بات ہوگی اس پر اپنی رائے رکھیں گے۔ وہیں اقلیتی امور کے وزیر مملکت دانش آزاد انصاری نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یوگی حکومت ریاست میں امن و امان بحال قائم کرنا چاہ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں ریاست میں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ہے، حکومت عوام کو جواب دہ ہے اور ماضی کے واقعات سے سبق بھی حاصل کر رہی ہے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں، لہذا مراد آباد فساد کی رپورٹ پیش کی گئی ہے اور یہ عوام کے مابین ہوگا کہ کس قدر عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی تھی اور اس پورے رپورٹ میں کیا سامنے لایا گیا تھا یہ عوام کے مابین رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست میں ترقی خوشحالی امن و امان اور بھائی چارہ کی طرف حکومت مضبوطی کے ساتھ قدم بڑھا رہی ہے۔
واضح رہے کہ مرادآباد میں 13 اگسٹ 1980 کو عید کے دن فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے جن میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 83 افراد ہلاک جبکہ 112 افراد زخمی ہوئے تھے۔ فرقہ وارانہ فسادت کے بعد تقریبا ایک ماہ تک مرادآباد میں کرفیو نافذ رہا تھا۔