اعظم خان سے انتہائی قربت رکھنے والے اتر پردیش کے سابق اطلاعاتی کمشنر سید حیدر عباس Ex UP Information Commissioner Syed Haider Abbas نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اعظم خان کے سیاسی سفر کا آغاز عبد الجلیل فریدی کی مسلم مجلس پارٹی سے 1977 میں ہوا تھا۔ مسلم مجلس پارٹی سے لڑے گئے پہلے انتخاب میں ان کو ناکامی ملی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے 1980 میں سوشلسٹ پارٹی کا دامن تھاما، لیکن وہاں بھی زیادہ وقت تک نہیں رہے۔ اس کے بعد ملائم سنگھ یادو جانیشورو مشرا اور اعظم خان نے سماج وادی پارٹی کی بنیاد رکھی اور ریاست میں مضبوط پارٹی بنائی۔ 2002 میں اعظم خان اسمبلی میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعت کے رہنما بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت بہوجن سماج پارٹی اور بی جے پی کی مشترکہ حکومت تھی۔
اعظم خان کے سیاسی سفر میں سماج وادی پارٹی سے ایک بار برطرف بھی کیا گیا، لیکن اعظم خان نے کسی اور پارٹی کا دامن نہیں تھاما۔ دوبارہ اعظم خان نے سماج وادی پارٹی سے وابستگی اختیار کی اور 2012 میں سماجوادی پارٹی کی حکومت بنی۔ انہوں نے بتایا کہ بابری مسجد انہدام کے بعد ملائم سنگھ نے جب کلیان سنگھ سے ہاتھ ملایا تھا۔ اس دوران کہا تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے، لیکن اعظم خاں نے یہ باور کرایا تھا کہ ملائم سنگھ نے اگرچہ ہاتھ ملایا ہے، لیکن ان کے نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس طرح سے متعدد واقعات سماج وادی پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ اعظم خان سماج وادی پارٹی سے علیٰحدگی اختیار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں اکھلیش یادو حزب اختلاف سیاسی جماعت کے رہنما ہیں۔ اس معاملے میں بھی اکھلیش نے اعظم خان سے رائے مشورہ ضرور کیا ہوگا۔ موجودہ وقت میں جو بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں یا بیانات سامنے آ رہے ہیں، وہ ان کے نجی بیان ہو سکتے ہیں، لیکن اعظم خان کی طرف سے اس طریقے کی کسی پہل کا امکان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسدالدین اویسی کی پارٹی میں اعظم خان کے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے، کیونکہ اعظم خان نے اس دور میں مسلم مجلس پارٹی کو چھوڑ دیا، جس دور میں مجلس کے پاس متعد اراکین اسمبلی اور 2 ارکان پارلیمنٹ تھے۔ لہذا اسد الدین اویسی کی پارٹی میں موجودہ حالات میں اعظم خان کا جانا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعظم خان کی رہائی کے حوالے سے اکھلیش یادو نے متعدد بار میرے ذریعے پیغامات بھیجے اور اعظم خان نے بھی اپنے متعدد پیغامات بھیجے ہیں، لہذا جو بھی بات چیت ہوتی ہے ان لوگوں کے مابین ہوتی ہے۔ تیسرے کو کسی بھی طرح کے بیانات سے پرہیز کرنا چاہیے۔