جونپور:- شیراز ہند کے خطاب سے عالمی شہرت یافتہ ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور کبھی علم و ادب، تہذیب وثقافت کا سینٹر ہوا کرتا تھا جہاں چودہ سو علماء کی پالکیاں ایک ساتھ نماز عیدین و جمعہ کے لیے نکلا کرتی تھیں اور جس کے داستان علم دور دور تک مشہور تھی جس کے بنا پر دنیا کے کونے کونے سے علم کے پاسے اس کا شہرہ سن کر جونپور کا رخ کیا کرتے تھے جو شرقی سلطنت کی دارالحکومت تھی جہاں بے شمار مدارس، خانقاہیں آباد تھیں جس کے اخراجات کو حکومت وقت پورا کرتی تھی مگر اب یہ باتیں محض تاریخی کے اوراق میں درج ہیں۔
آج بھی کچھ ایسی ہستیاں ہیں جو جونپور کی صدیوں پرانی وراثت کو اپنے تعلیمی مشن کے ذریعے سے زندہ کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ انہیں میں ایک ہستی ڈاکٹر عبد القادر خان ہیں جو محمد حسن گروپ آف کالجز کے چئیرمین ہیں جن کے جونپور میں کل بارہ اسکول چل رہے ہیں جس میں بیس ہزار سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں، عبد القادر خان کو جونپور کا سر سید کہا جاتا ہے جو یتیم، مالی اعتبار سے کمزور بچوں کی فیس میں کنشیشن بھی کرتے ہیں۔ آج محمد حسن گروپ آف کالجز جونپور میں علمی روشنی کو جلاے رکھا ہے جو آہستہ آہستہ ایک شناخت اور برانڈ بھی بن چکا ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے ڈاکٹر عبد القادر خان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد القادر خان نے بتایا کہ آزادی سے قبل محمد حسن اسکول کی شروعات انجمن اسلامیہ کمیٹی کے بزرگوں نے 1943 میں کیا تھا۔ بڑی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے یہ اسکول آگے بڑھتا رہا اور 1994 میں محمد حسن کالج اپنے اندر پچاس سال کی تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ جو کوئی اس سے پڑھ کر نکلتا تھا وہ بڑے فخریہ انداز میں کہتا تھا کہ میں یہاں کا طالب علم رہا ہوں، جب میں کبھی شہر کے دوسرے حصے میں بیٹھتا تھا۔ تو یہ دیکھتا تھا کہ صبح سویرے مسلم بچے بچیاں دوسرے اسکولوں ہائر ایجوکیشن لینے کے لیے جاتے تھے جس میں بچیوں کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تبھی ڈگری کالج کا قیام عمل میں آیا اور آج ڈگری کالج میں کون سا ایسا مضمون نہیں ہے جس کی تعلیم نہ دی جاتی ہو ہر وہ سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں۔ جو پوروانچل یونیورسٹی میں ہے ہمارے سارے اساتذہ اچھی تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ہر سال پوروانچل یونیورسٹی کی گولڈ میڈل لسٹ میں ڈگری کالج کے 7,8 بچوں کا نام ضرور آتا ہے جو بہت ہی خوش کن بات ہے، اسپورٹس میں بھی محمد حسن کے بچے آگے ہیں۔
ڈاکٹر خان نے کہا کہ جو محمد حسن گروپ آف کالجز کے اسکول ہیں اس میں مشکل سے 20 فیصد مسلم بچے ہوں گے اس سے زیادہ دوسرے طبقے کے لوگ ہے ہمارے یہاں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ اگر کوئی سرپرست داخلہ کے لیے آئے تو اپنے پیسوں کی کمی وجہ سے ہمارے گیٹ سے باہر نہ جائے ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ سال بھر میں 80 لاکھ کنشیشن کردیتے ہیں، بچوں کو کیوں کہ ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ بچوں کو پڑھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج مسلمان پسماندگی کا اگر شکار ہیں تو وہ حکمرانوں کی وجہ سے ہے کیونکہ وقت رہتے انہوں نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے کام نہیں کیا پھر بھی مایوس کن نہیں ہیں۔ آج بھی کام ہو رہا ہے خاص طور سے بچیاں آگے ہیں جو ملک تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گی حکومت بھی مسلم بچوں کی تعلیم کا انتظام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی جو بچے تعلیم سے دور ہیں۔ اس میں والدین کا قصور ہے اگر وہ آج بھی تعلیم کی طاقت کو نہیں پہچانے تو کب پہچانیں گے ان بچوں کو اسکول تک لانا پڑے گا۔ والدین کی ذمہ داری کے ساتھ سوسائٹی کی بھی ذمہ داری ہے جس طرح سے تبلیغی جماعت کے لوگ لوگوں کو نمازی بنانے کے لیے مسجد لاتے ہیں تو کیا ہم انہیں تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے ایسا نہیں کر سکتے ہمیں کرنا ہوگا۔ انہوں نے کیا کہ مسلم کمیونٹی تعلیمی میدان میں آج بھی بہت پیچھے ہے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے جو اچھے اسکولز، کالجز کے قیام کی طرف رخ کریں جب مساجد بنانے کے لیے پیسے دیئے جا سکتے ہیں تو ایک اسکول بنانے کے لیے پیسے کیوں نہیں دیئے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: مظفرنگر میں اسلام میں تعلیم کی اہمیت پر سمینار
عبد القادر خان نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی لیڈر مجھ سے ملتا ہے یا میرے کیمیپس میں آتا ہے تو وہ میرے بائیس ہزار بچے میری طاقت ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ جڑوں مگر میں اس تعلیمی مشن کو آگے بڑھانے میں سر گرم عمل ہوں مجھے اس کالج کو یونیورسٹی بنانا ہے ابھی میرا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں لا کالج بنانے کی کوشش میں لگا ہوں اور ساتھ ہی کوشش ہے کہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اگلے پانچ سالوں میں اگر جونپور میں یونیورسٹی کھول لی جائے تو یہ اہل جونپور اور سوسائٹی کے لیے ایک بڑی بات ہوگی۔ انہوں نے بچوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ علم کی طاقت کو پہچانیں اور آگے بڑھیں۔